اب انتظار انتخابی نتائج کا!

0

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے 7 ویں اور آخری مرحلے کی پولنگ آج ہوگئی۔ اب انتظار انتخابی نتائج کا ہے جو 10 مارچ کو آئے گا۔ اسی دن یہ پتہ چلے گاکہ اترپردیش اور دیگر چار ریاستوں میں کس پارٹی یا اتحاد کی حکومت بنے گی، 10 مارچ کو ہی پتہ چلے گا کہ عوام نے کن ایشوز کو زیادہ اہمیت دی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ ہر ایک ریاست کے انتخاب کی اہمیت ہے مگر اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر پارٹیوں کی توجہ زیادہ اس لیے مرکوز رہی، کیونکہ وہاں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں۔ اترپردیش میں اگر کسی پارٹی کی پوزیشن مستحکم رہتی ہے تو اس کے لیے مرکز کی راہ خود بخود آسان ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش کے 2022 کے اسمبلی انتخابات کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا گیا۔ زور دار انتخابی تشہیر ہوئی۔ کسی لیڈر نے کہا کہ ’گرمی نکال دیں گے‘ ،کسی نے کہا، ’چربی پگھلا دیں‘۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابی نتائج ’گرمی نکالنے‘ کا موقع دیں گے یا ’چربی پگھلانے‘ کا،ا لبتہ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اس بار لیڈروں نے سیاسی مریادا کی لکشمن ریکھا بار بار لانگھی ہے، بیان دیتے وقت یہ خیال نہیں کیا ہے کہ وہ عوام کے ترجمان ہیں، ان کی زبان بگڑے گی تو اس کا اثر عام لوگوں پر بھی پڑے گا مگر ہر حال میں چناؤ جیتنے کی جدوجہد یہ دیکھنے ہی نہیں دیتی کہ وقتی مفاد کے حصول کے لیے کی جانے والی بیان بازیوں کا اثر ملک کی ساکھ، اس کی تہذیب و ثقافت پر کیا پڑے گا، گنگا جمنی تہذیب کا کیا ہوگا۔ انتخابی تشہیر نے یہی احساس دلایا ہے کہ ملک میں ایک نئی قسم کی سوچ کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جو نہ ہندوستانیوں کے مزاج سے میل کھاتی ہے، نہ ہی ہندوستان کی تہذیب سے، چنانچہ اس طرف عام لوگوں کو توجہ دینی ہوگی ۔
اس بار کے اترپردیش اسمبلی انتخاب میں کئی ایشوز موضوع بحث بنے، ان میں سانڈوں کے کھیتوں کو روندنے کا ایشو عام لوگوں کے لیے بہت اہم نظر آیا تو بلڈوزر کا تذکرہ بھی خوب چھیڑا۔ 20 کے مقابلے 80 کا راگ چھیڑا گیا تو اس پر بھی جم کر بیان بازی ہوئی اور سیاسی حصولیابی کے لیے سماج کو بانٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ایودھیا کے ساتھ متھرا کا تذکرہ بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے کیا گیا۔ کئی لیڈران نے اپنی حریف پارٹی کے لیڈروں کے خلاف بیان دیتے وقت یہ خیال نہیں کیا کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں، حریف ہیں۔ انتخابات ہوتے رہے ہیں، ہوتے رہیں گے مگر سماج پیار محبت سے پنپنے گا، ملک کی ترقی کے لیے ضروری یہ ہے کہ امن قائم رہے اور بدامنی پیدا ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو مگر بیان بازیوں میں سیاسی انتقام کی آہٹ محسوس ہونے لگے تو اندیشے خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان اندیشوں کو مختلف ایجنسیوں کی زیادہ تر غیر حکمراں پارٹی کے لیڈروں کے خلاف ہی کارروائی سے بھی تقویت ملتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ انتخابی عمل کے دوران کئی منفی باتیں ہوئیں جو نہیں ہونی چاہیے تھیں مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ5 ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں سے اکادکا واقعہ کے علاوہ کہیں بھی کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ ریلیوں میں جانے والے لوگ ہوں یا ووٹ ڈالنے والے، وہ جوش کے ساتھ ہوش میں نظر آئے، کوئی اپنی پسندیدہ پارٹی کے لیے لڑبھڑ کر خون بہاتا نظر نہیں آیا۔ جذبات کے اظہار میں نپے تلے الفاظ کا استعمال اور زیادہ تر خاموش رہ کر ووٹرس نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ لیڈروں کو جیسے بھی انتخابی عمل پورا کرنا ہے، کریں مگر انہیں جو کرنا ہے، وہ وہی کریں گے۔ وقت سے پہلے اپنے رجحانات کا اشارہ دے کر وہ لیڈروں کو یہ موقع فراہم نہیں کریں گے کہ وہ اہم ایشوز کو سیاست کی نذر کر دیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حالات نے ہمارے ووٹرس کو بہت کچھ سکھا دیا ہے، وہ حالات کے مطابق عمل کرنے لگے ہیں، اس لیے اگر نتائج چونکانے والے آئیں،نتائج اوپینین پولس کے برعکس آئیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج سے عوام لیڈروں کو یہ سمجھنے کا موقع دیں گے کہ وہ وکاس چاہتے ہیں، فرقہ وارانہ سیاست یا دھرم اور ذات کے نام پر تفریق نہیں۔ تفریق سے ممکن ہے، کسی خاص پارٹی اور اس سے وابستہ لیڈروں کا بھلا ہو جائے مگر اس سے ملک کابھلا نہیں، نقصان ہی ہوگا، یہ وقت رہتے سمجھنا ہوگا۔ یہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ دنیا کے حالات پہلے جیسے نہیں رہ گئے ہیں اور وطن عزیز کے سبھی پڑوسی دوست نہیں ہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS