ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
کسی بھی جمہوری نظام حکومت کی کامیابی کا انحصار اس کے سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ عوام کے ذریعے منتخب حکومت اگر مستحکم ہوگی تو وہ عوامی فلاح و بہبود کی جانب یکسوئی کے ساتھ اپنی توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے سیاسی رہنماؤں میں مضبوط اخلاقی قدروں کے ساتھ سیاسی مستقل مزاجی کا ہونا لازمی ہے، تاہم اگر کسی ملک کی سیاست میں سیاسی رہنماؤں کے سامنے اخلاقی قدروں سے زیادہ سیاسی و ذاتی مفاد حاوی ہوگا تو یقینا سیاسی بحران کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ ہمارے ملک میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کے سامنے یہ خطرہ بار بار آیا اور سیاسی اتھل پتھل کے دوران قانون ساز اداروں کے ارکان کی خرید و فروخت کے علاوہ حکومتی اداروں کا غلط استعمال کرکے ان ارکان اسمبلی کو ڈرانے دھمکانے کے الزامات بھی بار بار منظرعام پر آتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بعد پڈوچیری میں بھی عوام کی منتخب جمہوری حکومت گرادی گئی۔
دونوں ہی ریاستوں میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اور ان کے کچھ اراکین اسمبلی کے استعفیٰ کے بعد اسمبلی ہاؤس میں ان کی پارٹی کے اقلیت میں آنے کے سبب حکومتیں گریں۔ اگر ماضی قریب میں ہی دیکھا جائے تو کرناٹک میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جب کانگریس پارٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اپنے جیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو فارم ہاؤس اور ہوٹلوں میں چھپاتے پھررہی تھی اور بالآخر کرناٹک میں سرکار اپنے ہی کچھ ارکان اسمبلی کے استعفیٰ کے بعد فلور ٹیسٹ میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔ کرناٹک سے پہلے اترپردیش، اتراکھنڈ، گوا، ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کے سیاسی بحران دیکھے گئے ہیں، مہاراشٹر میں یہی بازی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور ہوئی بھی، یعنی دل بدلو سیاست ہمارے لیے کوئی نئی ہے لیکن اب کبھی کبھی ہونے والا سیاسی بحران کا کھیل ہر صوبائی انتخابات کے بعد ہونے لگا ہے، یعنی دل بدلو سیاست ہمارے جمہوری نظام حکومت کے استحکام کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔
پدوچیری میں جس طرح کچھ باغی ارکان اسمبلی نے حکومت گرائی، حکومت گرتے ہی صدر راج کے نفاذ کا اعلان اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ الیکشن کی تاریخیں، یہ ہمارے ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہوسکتی ہیں۔
دل بدلو سیاست کی شروعات1967کے انتخابات کے بعد منظرعام پر آئی جب بہت سے صوبوں میں کسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور چھوٹی چھوٹی بہت سی سیاسی پارٹیاں ابھرکر سامنے آئیں تو ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے جیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو جوڑتوڑ کرکے حکومت سازی کی کوششیں ہوئیں، ایم ایل اے اپنی پارٹیاں چھوڑ کرسیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے سیاسی پارٹیاں بدلنے لگے، اگر یہ سیاسی تبدیلیاں سیاسی پارٹیوں کے نظریات یا پالیسیوں کی بنیاد پر ہوتیں تو اس کو سیاسی سمجھ بوجھ کہا جاسکتا تھا لیکن دراصل سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیاں حکومت سازی کے لیے جوڑتوڑ کی غرض و غایت سے ہورہی تھیں جو کہ دراصل عوام اور رائے دہندگان کی رائے کا مذاق اڑانا تھا۔ ’آئے رام گئے رام‘ کا محاورہ بھی اسی وقت کا ہے جب گیا لال نام کے ہریانہ کے ایک ایم ایل اے نے ایک دن میں تین بار سیاسی پارٹی بدلی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن میں سیاسی پارٹیاں انتخاب لڑنے کے لیے اپنے انتخانی منشور و انتخابی نشان کے ساتھ اپنے نمائندے عوام کے پاس بھیجتی ہیں جن کو پارٹی کی پالیسی و الیکشن مینی فیسٹو میں کیے گئے وعدوں کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ اگر کوئی نمائندہ الیکشن کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان پر جیتنے کے بعد کسی دوسری پارٹی میں حکومت سازی کے مقصد سے شامل ہوجاتا ہے تو وہ رائے دہندگان کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے، اس سیاسی دھوکہ بازی اور بغاوت کی روک تھام کرنا ضروری تھا جس کے لیے1985میں دستور ہند میں52ویں ترمیم کے ساتھ دسواں شیڈول جوڑا گیا، دل بدلو(روک تھام) قانون یعنی Anti Defection Act 1985 بنایا گیا۔ اینٹی ڈیفیکشن قانون کے اہم نکات میں پہلا یہ ہے کہ اگر کوئی بھی نمائندہ کسی سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ یا صوبے کی قانون ساز اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتا ہے تاہم الیکشن جیتنے کے بعد وہ اپنی مرضی سے اس سیاسی پارٹی سے استعفیٰ دے دیتا ہے تو اس ایم پی یا ایم ایل اے کی رکنیت دل بدلنے کی بنیاد پر خارج ہوجائے گی۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی ایم پی یا ایم ایل اے اپنی پارٹی کے مینڈیٹ(مقاصد و مفاد) کے خلاف کام کرتا ہے، نیز وہ سیاسی پارٹی اس ممبر کے ذریعہ کی گئی خلاف ورزی کو پندرہ دن کے اندر معاف نہیں کرتی ہے تو وہ ممبر دل بدلو کہا جائے گا اورایوان سے اس کی رکنیت منسوخ ہوجائے گی۔ اس قانون کی تیسری اہم صورت کے مطابق اگر کسی سیاسی پارٹی کے ایک تہائی ارکان کسی دیگر سیاسی پارٹی میں چلے جاتے ہیں یا ایوان میں ووٹ کرتے ہیں تو یہ صورت دل بدلنے کی نہیں بلکہ پارٹی ٹوٹنے کی کہی جائے گی اور ان ایک تہائی ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، جب کہ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی سیاسی پارٹی کے دوتہائی ارکان کسی دیگر پارٹی میں ضم ہوجائیں تو بھی اس قانون کی روشنی میں ان کو دل بدلو نہیں کہا جائے گا بلکہ ضم ہونا تسلیم کیا جائے گا۔ تیسری صورت کو 2003 میں دستور کی91ویں ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا۔
اینٹی ڈیفیکشن قانون بننے کے بعد بھی ایم ایل اے وقتاً فوقتاً رائے عامہ یا رائے دہندگان کے جذبات و انتخاب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی مفاد کے لیے اپنی پارٹی چھوڑ کر حکومتوں کا تختہ پلٹتے رہتے ہیں اور یہ قانون اس کی روک تھام میں پوری طرح ناکام ثابت ہوتارہا ہے۔ اس ناکامی کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اس قانون کے ساتویں پیراگراف یا شق کے مطابق ایوان کی تمام کارروائیاں اسپیکر کے ماتحت ہوں گی اور ارکان کی رکنیت کی منسوخی پراسپیکر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا جس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی پارٹی کے منتخب نمائندہ کو اسپیکر بنایا جاتا ہے، اصولی طور پر اسپیکر کے عہدے کی تخت نشینی کے بعد اسپیکر کو اپنی سیاسی پارٹی سے اوپر اٹھ کرآزادانہ طور پر ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن وہ سیاسی پارٹیوں کا ہی حصہ و وفادار بن کر اس قانون کے کامیاب نفاذ میں حائل ہوتے رہے۔ الگ الگ صوبوں کے ہائی کورٹ میں جب بہت سے مسائل جمع ہوگئے اور اسپیکر کے ذریعے اختیارات کے غلط استعمال کو لے کر بحث چھڑ گئی تو ہولوہوتو بنام جے چلی1992کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اینٹی ڈیفیکشن قانون کی شق میں عدالت کے اختیارات پر لگائی گئی بندش غیر دستوری ہے جو کہ دستور کے آرٹیکل368کے خلاف ہے اور اس شق کو ختم کردیا گیا جس کے بعد اسپیکر کے دیے گئے فیصلوں کو عدالت میں نظرثانی کے لیے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا تاہم سیاسی مسائل کا قانونی حل تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیاں سخت اخلاقی بحران کا شکار ہیں، انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی عوام کے جذبات و احساسات کی فکر کسی بھی سیاسی پارٹی یا اس کے نمائندگان کو نہیں رہتی۔ حالیہ دنوں میں جیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو گیسٹ ہاؤس و ہوٹلوں میں چھپانے کے بعد اب تو دیگر صوبوں میں تحفظ دینے کے واقعات بھی دیکھے گئے ہیں اور اب پدوچیری میں جس طرح کچھ باغی ارکان اسمبلی نے حکومت گرائی، حکومت گرتے ہی صدر راج کے نفاذ کا اعلان اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ الیکشن کی تاریخیں، یہ ہمارے ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہوسکتی ہیں۔
[email protected]