امن کیلئے سفر

0

جہاں امن ہوتا ہے وہیں انسانیت ہوتی ہے اور جہاں انسانیت ہوتی ہے وہیں انسان زندہ رہ پاتے ہیں۔ اسی لیے امن بڑی قیمتی شے ہے، یہ انمول ہے۔ اسے لانے کی اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ احترام کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ پوپ فرانسس کی یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو، لوگ دلوں سے کدورتیں ختم کریں، نفرت کے لیے دلوں میں گنجائش ختم کریں۔ پوپ فرانسس نے عراق کا حالیہ دورہ بھی اسی مقصد سے کیا ہے۔ اس دورے کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ ان کا پہلا عراق دورہ ہے اور کورونا وائرس کی آمد کے بعد یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’ایک سال تک لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پاپائے روم نے سب سے پہلے عراق جانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ عالمی برادری کی توجہ عراق کے شمالی حصے میں آباد مسیحی برادری کے مصائب کی طرف مبذول کرا سکیں۔ اس برادری کو 2014 سے 2017 تک دولت اسلامیہ نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ اس شدت پسندی کی وجہ سے مسیحی برادری کے زیادہ تر افراد اس علاقے کو چھوڑ چکے ہیں۔ مسیحیوں کے لیے یہ مقدس علاقہ ہے جو حضرت عیسیٰؑ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔‘
پوپ فرانسس نے عراق میں اُر میں جاکر امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ انجیل کے مطابق، اُر ہی حضرت ابراہیمؑکا مقام پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ پوپ فرانسس نے کہا کہ ’اس جگہ سے،جہاں عقیدت پیدا ہوئی تھی، ہمارے باوا ابراہیم ؑ کی زمین سے ، ہم لوگ یہ اعتماد کر لیں کہ اللہ مہربان ہے اور سب سے بڑی گستاخی یہ ہے کہ ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں سے نفرت کریں۔‘ پوپ نے بجا طور پر کہا کہ ’اصل مذہبیت اللہ کی عبادت کرنا اور پڑوسیوں سے محبت کرنا ہے۔‘ پوپ فرانسس یہ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کو یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں پیغمبر مانتے ہیں۔ مسلمان تو انہیں اللہ کا دوست مانتے ہیں، چنانچہ انہو ںنے علامتی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تینوں مذاہب کے لوگ اگر نفرتیں ختم کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان سے پہلے کے سبھی پیغمبروں کو وہ تینوں مانتے ہیں۔
امن کے لیے پوپ فرانسس کے عراق دورے اور اُر سے ان کے پیغام کی اہمیت ہے، کیونکہ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیوبش نے جس طرح عراق کو تباہ کیا، وہ باعث نفرت بنا۔ عراق کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جھوٹے بہانوں سے ایک جنگ ان پر کیوں تھوپی گئی؟ کیا ایک لیڈر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ عام لوگوں کی جان و مال کی پروا نہیں کی گئی؟ سمجھا جاتا ہے کہ صدام نے اپنے دور اقتدار میں مذہب کے نام پرعراقیوں کے مابین کبھی تفریق نہیں کی، البتہ انہیں ہٹائے جانے کے بعد اور عراق کو بدامنی کی دلدل میں دھکیل دینے کے بعد سے وہاں مسلک اور مذہب کے نام پر لوگ مارے جاتے رہے ہیں۔ اس نفرت کو پوپ فرانسس قصہ پارینہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ 5 مارچ، 2021 کو سہ روزہ عراق دورے پر گئے اور اُر سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ پوپ اس بات سے بے خبر نہیں کہ اُر میں 4 ہزار یا ساڑھے تین ہزار سال ق۔م۔کے آثار ہی بچے ہیں مگر اس کی خاک میں دبے امن کے پیغام کو کرید کرباہر نکالنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس پر اگر آج توجہ نہ دی گئی تو یوروپی ملکوں میں مسلمانوں کے مذہبی ملبوسات پر جس طرح پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، مسجدوں کی میناریں جس طرح متنازع بنا دی گئی ہیں، مقدس مذہبی شخصیت کیخاکے بنائے جا رہے ہیں اور لیڈران قول و عمل سے اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دے رہے ہیں، وہ سب مل کر آنے والے برسوں میں کسی بڑے تنازع کی وجہ بن جائیں اور یہ تنازع دنیا کا امن غارت کر کے رکھ دے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے بجا طور پر پوپ فرانسس کے دورے کو ’امن اور رواداری کا بہترین پیغام‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پوپ کا یہ دورہ میناروں اور کلیسا کے گھنٹوں کی ایک تاریخی ملاقات ہے۔‘ امید کی جانی چاہیے کہ پوپ فرانسس کی یہ بات عراق، یوروپی ممالک کے لوگ اور دنیا کے دیگر ملکوں کے لوگ بھی سمجھیں گے کہ ’دشمنی، انتہا پسندی اور تشدد مذہبی دل میں پیدا نہیں ہوتیں، یہ مذہب کے لیے دھوکہ ہیں۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS