صبیح احمد
’جان ہے تو جہان ہے۔‘ عموماً اس کہاوت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ خاص طور پر ہندوستان میں تو قطعی نہیں۔ عام دنوں کی بات تو چھوڑیے، ایسا لگتا ہے کہ کووڈ19- جیسے عالمی بحران سے بھی ہندوستان نے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس مہلک بیماری کو بھی یہاں لوگوں نے عام بیماریوں کی طرح لیا اور اس پر خصوصی توجہ دینے کے بجائے دنیا کے باقی تمام کاموں کو ترجیح دینے کی کوشش کی۔ حصول اقتدار کیلئے تگ ودو میں مصروف ہم یہ بات بھول گئے کہ یہ بیماری جس کا نام کووڈ19- ہے، فی الحال ایک دو دن یا ایک دو سال میں بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ابھی تک کہنا مشکل ہے کہ یہ وبا کب تک ہماری جانوں کے پیچھے پڑی رہے گی۔ گزشتہ سال کے آخری دنوں میں تھوڑی سی راحت ملتے ہی ہم بے پروا ہو گئے اور اس بیماری سے بچنے کے لیے طے شدہ تمام پروٹوکول اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر خم ٹھونکنے لگ گئے کہ ہم نے بیماری کو مات دے دی ہے۔
رواں سال جنوری اور فروری میں قومی سطح پر وائرس سے متاثرین کی یومیہ تعداد ستمبر کے 90 ہزار سے کم ہو کر 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اسی دوران وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کردیا تھا کہ کووڈ کو شکست دے دی گئی ہے اور سماجی دوری اور دیگر پابندیوں میں ڈھیل دے دی گئی تھی اور پھر کیا تھا، جلد ہی لوگوں نے کووڈ سے متعلق حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد بھی ختم کردیا تھا جس کی وجہ اعلیٰ قیادت کی جانب سے ملے جلے پیغامات جاری کرنا تھے۔ ایک طرف تو وزیراعظم مودی لوگوں کوماسک پہننے کی ترغیب اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی ترغیب دے رہے تھے تو دوسری جانب انہوں نے خود ماسک کے بغیر 5 ریاستوں میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کیے۔ ان کے کئی وزرا بھی بغیر ماسک پہنے تقریریں کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ کمبھ میلے کے انعقاد کو بھی روکا نہیں گیا جس میں لاکھوں افراد نے کسی طرح کے حفاظتی اقدامات کے بغیر شرکت کی۔ یہ صورتحال دراصل حکومت کے قول و فعل میں کھلے تضاد کا نتیجہ تھی۔ حکومت نے دوسری لہر آنے کی وارننگ پر توجہ دینے کی قطعی کوشش نہیں کی اور اپنی کامیابی پر جشن منانا شروع کردیا۔ حالانکہ ماہرین نے اس طرح کی لہر کے آنے کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا۔
حصول اقتدار کیلئے تگ و دو میں مصروف ہم یہ بات بھول گئے کہ یہ بیماری جس کا نام کووڈ19- ہے، فی الحال ایک دو دن یا ایک دو سال میں بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ابھی تک کہنا مشکل ہے کہ یہ وبا کب تک ہماری جانوں کے پیچھے پڑی رہے گی۔ گزشتہ سال کے آخری دنوں میں تھوڑی سی راحت ملتے ہی ہم بے پرواہ ہو گئے اور اس بیماری سے بچنے کے لیے طے شدہ تمام پروٹوکول اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر خم ٹھونکنے لگ گئے کہ ہم نے بیماری کو مات دے دی ہے۔
بہرحال کورونا کی اس تباہی نے ہندوستان کے صحت عامہ کے شعبے میں فنڈز کی کمی اور اس کو نظرانداز کیے جانے کے اہم مسئلہ کو بہت زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ اسپتالوں کے باہر اذیت ناک مناظر اور علاج کے بغیر لوگوں کی ہلاکت کے مناظر نے ہندوستان کے صحت عامہ کے ڈھانچے کی خوفناک حقیقت کو آشکار کر دیا ہے۔ ہندوستان کے سرکاری اور نجی صحت کے شعبے میں گزشتہ 6 برسوں سے مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی)کا 3.6 فیصد خرچ کیا جارہا ہے جو ’برکس‘ ممالک(برازیل، ہندوستان، چین، روس اور ساؤتھ افریقہ) میں سب سے کم ہے۔ 2018 میں برازیل نے 9.2 فیصد خرچ کیا، ساؤتھ افریقہ نے 8.1 فیصد، روس نے 5.3 فیصد اور چین نے 5 فیصد خرچ کیا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک اس تناسب کے لحاظ سے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا اس شعبہ میں کہیں زیادہ حصہ خرچ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر2018 میں امریکہ نے 16.9 فیصد خرچ کیا تھا، جرمنی نے 11.2 فیصد خرچ کیا۔ بعض چھوٹے ممالک مثلاً سری لنکا(3.76 فیصد) اور تھائی لینڈ (3.79 فیصد) نے بھی صحت کے شعبے میں ہندوستان سے زیادہ خرچ کیا۔ ہندوستان میں ہر 10 ہزار افراد کے لیے 10 سے بھی کم ڈاکٹر ہیں جبکہ بعض ریاستوں میں تو یہ شرح 5 سے بھی کم ہے۔
گزشتہ سال ہی کورونا وائرس کی اگلی لہر سے نمٹنے کے لیے مختلف تیاریوں کا جائزہ لیا گیا تھا اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی، اسی لیے ماہرین آکسیجن، اسپتالوں میں بستروں اور ادویات کی قلت سے پریشان ہیں۔ جب پہلی لہر ابتدائی سطح پر تھی، تب ہی سے دوسری لہر کو پہلی سے بھی زیادہ بدتر سمجھتے ہوئے اس کی تیاری کر لینی چاہیے تھی۔ آکسیجن اور ادویات کے اعدادوشمار کی فہرست تیار کرنی چاہیے تھی اور پھر ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیے تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہندوستان طلب میں اضافہ کے حساب سے کافی آکسیجن تیار کرتا ہے لیکن اس ضمن میں نقل و حمل مسئلہ تھا۔ اگر ایسی بات تھی تو اس مسئلہ کو وقت رہتے حل کیوں نہیں کیا گیا؟ حکومت اب خصوصی ٹرینیں چلارہی ہے جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں آکسیجن لے جارہی ہیں اور صنعتوں میں آکسیجن کا استعمال روک دیا گیا ہے لیکن یہ سب کچھ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بہت سارے مریضوں کی موت کے بعد ہی کیا گیا۔ پچھلے برس نومبر میں ایک پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور صحت عامہ نے کہا تھا کہ اس وقت آکسیجن کی سپلائی ناکافی ہے اور سرکاری اسپتالوں میں تو ’بہت ہی کمی ہے۔‘ اس برس فروری میں کئی ماہرین نے بتایا تھا کہ وہ ایک ’کووڈ سنامی کے آنے کا خطرہ‘ محسوس کرتے ہیں۔ اس برس مارچ میں حکومت کے قائم کردہ ماہر سائنسدانوں کے ایک گروپ نے حکام کو خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی زیادہ متعدی اور مہلک قسم ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ماہرین کے اس گروپ کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ اس نئی قسم کو روکنے کے لیے قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت نے اس الزام پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے باوجود8 مارچ کو ملک کے وزیرصحت نے اعلان کیا کہ ’انڈیا اب اس وبا کے اختتامی مراحل‘ میں داخل ہوچکا ہے۔ کئی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندوستان میں وبا کے اعداد و شمار سرکاری ذرائع سے جاری کردہ تفصیلات سے زیادہ ہیں۔ ہندوستان میں نظام پر پڑنے والے دباؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں اور ہلاک شدگان کی بڑی تعداد ریکارڈ نہیں ہورہی ہے۔
کووڈ کے خلاف جنگ لڑنے کا سب سے بہترین اور مؤثر ترین متبادل آبادی کو جلد سے جلد ویکسین لگانا تھا تا کہ عوام کی اکثریت کو اسپتالوں میں دیکھ بھال کی ضرورت ہی نہ پڑے اور اس وجہ سے وہ صحت کے نظام پر دباؤ نہ ڈال سکیں۔ ہندوستان ابتدائی طور پر جولائی تک 30کروڑ افراد کو ویکسین لگانا چاہتا تھا۔ اب تک 1.4 ارب کی آبادی میں سے صرف 2کروڑ 60 لاکھ افراد کو ہی مکمل طور پر ویکسین دی جا سکی ہے اور تقریباً 12 کروڑ 40 لاکھ افراد کو پہلی خوراک دی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کو 45 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 44کروڑ افراد کی ٹیکہ کاری کے لیے 61 کروڑ 50 لاکھ خوراکوں کی ضرورت ہے۔ 18 سے 44 سال کی عمر کے درمیان 62 کروڑ 20 لاکھ افراد موجود ہیں اور ان کی ٹیکہ کاری کے لیے ایک ارب اور 20 کروڑ ڈوز کی ضرورت ہے۔ حکومت نے بین الاقوامی سپلائی کے وعدوں پر نظرثانی کرتے ہوئے برآمدات کے آرڈر کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔ اس نے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کو 60 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے قرض کی سہولت بھی فراہم کی ہے جو آکسفورڈ-ایسٹرا زینیکا کی ویکسین تیار کرتا ہے جو ہندوستان میں کووی شیلڈ کے نام سے تیار کر رہا ہے تا کہ اس کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔ قیمتی جانیں بچانے کے لیے یہ فنڈ پہلے ہی دستیاب ہو جانا چاہیے تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان کو ’دنیا کی فارمیسی‘ کہا جاتا ہے اور اب اسے ویکسین اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ ’انویسٹ انڈیا‘ ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں جینرک ادویات کی فراہمی میں ہندوستان کا حصہ 20 فیصد ہے۔ پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے ہندوستان کی دوا ساز صنعت دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان میں 3 ہزار فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں۔ یہاں امریکی ادارہ ایف ڈی اے، عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے منظور شدہ پلانٹ بھی قائم ہیں۔ ان تمام چیزوں کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے لیے بہتر تیاری کرنے کا ایک اہم پیغام بننا چاہیے جس کا مطلب ہے کہ صحت عامہ کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری ہونی چاہیے کیونکہ یہ یقینی طور پر آخری وبا نہیں ہے جس کے خلاف ہمیں لڑنا پڑ رہا ہے۔مستقبل کی وبائی بیماری کسی بھی پیش گوئی سے پہلے آ سکتی ہے۔
[email protected]