کورونا اور ناکام حکو متیں

0

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ڈبل میوٹینٹ کا کورونا وائرس آسمانی قہر بن کر ہندوستان پر ٹوٹ پڑا ہے ۔ اموات کی مجموعی تعدادکابہت جلد ملین تک پہنچ جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیاجارہاہے ۔ لیکن ان اموات کاسبب صرف کورونا وائرس کو قرار دینا اپنی ناکامی اور نااہلی چھپانے جیسا ہے۔ اب تک ہونے والی اموات کاکورونا سے کہیں زیادہ علاج نہ ملنا سبب ہے۔ بالخصوص اترپردیش اور بہار میں حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ مرنے والوں کی آخری رسوم بھی نہیں ادا ہورہی ہیں اور ان کی لاشوں کو جانوروں کی لاش کی طرح ندی میں پھینک دیا جا رہا ہے۔ حمیر پور ضلع میں جمنا ندی اور بہار کے بکسر میں گنگاندی سے نکلنے والی لاشوںپر زندہ افراد ابھی ماتم ہی کررہے تھے کہ دوسری دل خراش خبراترپردیش کے غازی پور سے آگئی جہاں گنگا ندی میں تیرتی ہوئی درجنوں لاشیں ملی ہیں۔کورونا انفیکشن سے ہونے والی ان اموات اور لاشوں کی خبر پھیلتے ہی پورے علاقے میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی اور لوگ گائوں چھوڑ کر فرار بھی ہونے لگے۔اب تک مختلف ندیوں سے نکلنے والی200 سے زیادہ لاشوں کی خبر ہے لیکن انتظامیہ لاشوں کی تعداد کم کرکے بتارہی ہے۔اب انسان کی لاشیں 2 ہوں یا 200ہوں یہ صورتحال انتہائی بھیانک ہے اور حکومت کی مکمل ناکامی کا کھلا اعلان بھی ہے ۔
جب حکومتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو زندہ رہنے والوں کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔بہار اور اترپردیش میں یہی ہورہاہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسپتالوں میں بستر، آکسیجن اور ریمڈیسور کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے، اترپردیش کے ہر ضلع سے یہ خبر آرہی ہے کہ دوا اور علاج نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کی مسلسل موت ہورہی ہے۔حکمراں ٹولہ میں شامل بھارتیہ جنتاپارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں، وزیروں اور مشیروں تک کو علاج ملنے میں ناکامی ہورہی ہے۔ ارکان اسمبلی کی اہلیہ تک کو اسپتال سے دھکیل کر بھگادیاجارہاہے۔ شمشان گھاٹوں پر اتنی لمبی قطار ہے کہ مہلوکین کے ورثا میں انتظار کا یارا نہیں رہ گیا ہے اور وہ خوف و دہشت کے عالم اپنے پیاروں کی لاشیں دریا برد کررہے ہیں۔
یہی کچھ صورتحال بہار کی ہے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار خود کو سوساشن بابو کہتے ہیں اور اپنی خوش انتظامی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ بدنظمی بہار میں ہی ہے۔دوا اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہر منٹ میں ایک موت ہورہی ہے۔ لاشوں کو کندھا دینے والے بھی نہیں ہیں۔بہار کا بکسر ضلع جہاں ندی میں پھینکی گئی لاشیں ملی ہیں، وہاں کے تمام شمشان گھاٹوں پر دن رات چتائیں جل رہی ہیں۔پہلے جہاں 4-5 چتائیں جلائی جاتی تھیں، آج ان کی تعداد روزانہ90سے 100کے درمیان ہے۔جو لاشیں جلائی نہیں جاپارہی ہیں انہیں ندی میں پھینک دیاجارہا ہے۔کورونا مہلوکین کی آخری رسوم سرکاری خرچ پر کیے جانے کا اعلان کرنے کے باوجود نتیش حکومت میں ’قانون کی حکمرانی‘ کا یہ حال ہے کہ بغیر موٹی رقم لیے کارندے لاش کو دیکھ بھی نہیں رہے ہیں۔اسپتال جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں۔ دوا تو دور اسپتالوں میں نہ بیڈ ہے اور نہ ڈاکٹر ہیں۔حتیٰ کہ ایمبولینس جیسی بنیادی سہولت بھی ختم ہوگئی ہے۔ کہا تو یہ جارہاہے کہ 40سے زیادہ ایمبولینس گاڑیوں کا پورا ایک قافلہ بی جے پی کے ایک سابق وزیر نے چھپا دیاتھا اور بہانہ یہ بنایا کہ ڈرائیور نہ ملنے کی وجہ سے ان گاڑیوں کا استعمال نہیں کیاجاسکتا ہے۔
وبائی حالات میں حکومت کی ذمہ داریاں دو چند ہوجاتی ہیں اور عوام کی توقعات میں بھی بے حد اضافہ ہوجانا فطری عمل ہے لیکن بہار اور اترپردیش میں کورونا سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں، اس میں حکومت کی مسلسل لاپروائی نظر آرہی ہے۔ کووڈ کی دوسری لہر کے تعلق سے ہماری میڈیکل ٹیم کے اعلیٰ ذمہ داروں نے پہلی لہر کے خاتمہ کے ساتھ ہی ہوشیار کرنا شروع کردیا تھا،اس کے باوجود ریاستی حکومت نے اپنے وسائل کا استعمال نہیں کیا جس کے نتیجہ میں آج عوام غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ حکومت عوام میں پھیلنے والی افواہوں پر بھی نظر رکھنے میں ناکام ہے۔ کورونا کی خوفناک صورت میں حکومت کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن بہار اور اترپردیش کی حکومتیں اس انسانی درد کے اظہار میں بھی ناکام نظر آرہی ہیں۔ ریاستی حکومت اگر اسپتالوں میں پہلے سے وسائل کے درست استعمال کے لیے کمربستہ ہوجاتی تو مرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں ہوتی کہ لوگ چپکے سے لاشیں دریا اور ندیوں میں بہانے کی غیر انسانی حرکت کرتے۔ ریاستیں صرف الیکشن کو سامنے رکھ کر اپنی مشینری کا استعمال کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے آج حکومت بدنظمی کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS