محمد فاروق اعظمی
ہندوستان کے بارے میں عالمی سطح پر ان دنوں دو مختلف اور متضاد آراگردش میں ہیں۔ پہلی رائے ہنڈن برگ نامی ایک تحقیقاتی ایجنسی کی ہے۔اس ایجنسی کادعویٰ ہے کہ حکمراں جماعت کی سرپرستی میں ہندوستان کا سب سے بڑا صنعتی گھرانہ اڈانی گروپ اپنے ہی ملک کو منظم طریقے سے لوٹ رہاہے، دوسری رائے غیر ملکی سرمایہ دار اور جمہوریت کیلئے کام کرنے والے جارج سوروس کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اڈانی ایشو کے بہانے ہندوستان میںجمہوریت بحال کی جاسکتی ہے۔ان دونوں کے موضوعات ایک ہی ہیںلیکن ان کی رائے الگ الگ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں متضادآرا پر ہندوستان کاردعمل بالکل یکساں اور مساوی ہے۔ سرمایہ دار جارج سوروس کے بیان کو حکومت نے ہندوستان پر ’حملہ‘ قرار دیا ہے تو ہنڈن برگ کی تحقیقاتی رپورٹ پر بھی گوتم اڈانی اور ان کے گماشتوں کا من و عن یہی ردعمل رہا۔ ہندوستان کے وسائل اور دولت کی منظم لوٹ مار کے الزامات کوسرمایہ دار گوتم اڈانی اور حکمراں جماعت کے سربرآوردہ رہنمائوں نے ہندوستان پر حملہ ٹھہرایا۔ یعنی حکمراں اور سرمایہ داردونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان پر غیر ملکی حملے ہورہے ہیں۔
ملکی وسائل اور دولت کی لوٹ مار اور جمہوریت کو پابہ زنجیر کیے جانے کو غیر ملکی حملہ قرار دے کر ہندوستان بھلے ہی اپنے دامن کاداغ چھپانے کی کوشش کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے پورے ملک کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں سونپ کر ملکی قانون کو بھی ان کے مفاد کا نگہبان بنادیا ہے۔حکمراں ٹولہ اپنی لوٹ مارجاری رکھنے کیلئے سرمایہ داروں کے اجرتی غلام کا کردار ادا کررہاہے۔ہر وہ گلا گھونٹا جارہاہے جس سے احتجاج اور مخالفت کی ہلکی سی آواز بھی اٹھتی ہو۔شہری حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت کی سنہری قبا پرجابجا مظالم و اذیت اور جبر و بربریت کے ایسے مکروہ اور بدنما داغ ہیں جن سے اٹھنے والا تعفن پوری دنیا میں ہماری سبک سری کا سبب بن رہاہے۔
ہنڈن برگ کے الزامات اور جارج سوروس کے بیان کو بھی اسی تناظرمیںلینے کی ضرورت ہے۔ہنڈن برگ ایک امریکی انویسٹمنٹ ریسرچ فرم ہے جو مالی بددیانتی کے بڑے بڑے معاملات اجاگر کرنے کا ریکارڈ رکھتی ہے تو جارج سوروس جمہوریت، شفافیت اور اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دینے والے اداروںکے وفاق اوپن سوسائٹی فائونڈیشنز کے بانی ہیں۔ہنڈن برگ نے دو برسوں کی کدو کاوش کے بعد 106 صفحات پر 32 ہزار الفاظ اور 720 سے زیادہ مثالوں سے مزین جو تحقیقاتی رپورٹ دی ہے، اس میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے صنعتی گھرانوں میں سے ایک اڈانی گروپ 17.8ٹریلین روپے کے اسٹاک میں ہیرا پھیری اور اکائونٹنگ کے فراڈ میںملوث ہے۔
جارج سوروس نے جرمنی کے میونخ میں ایک سیکورٹی کانفرنس کے دوران کہا کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی، اڈانی کے معاملے پر خاموش ہیں، لیکن انہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پارلیمنٹ میں سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ اس سے ہندوستان کی مرکزی حکومت پر مودی کی گرفت بہت کمزور ہو جائے گی اور انتہائی ضروری ادارہ جاتی اصلاحات کیلئے راستہ کھل جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی باتیں عجیب لگیں لیکن اس سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ بھی کھل جائے گا۔جارج سوروس کے بیان میں بین السطور جو پیغام ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں سردست جمہوریت معطل ہے اور یہ حکومت پر مودی یاوسیع تر معنوں میں بی جے پی-آرایس ایس کی گرفت کمزور ہونے کے بعد بحال ہونی ممکن ہے۔
اس حقیقت سے بہرحال انکار کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ہندوستان میں لوٹ مار، بدعنوانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور جمہوریت میں لگاتار کمزوری آرہی ہے۔ 2014 کے بعد سے ملک میںایسے ہر کاز کو فروغ ملا ہے، جس سے جمہوریت کمزور اور اجارہ داری کی سیاست کا فروغ ہوتا ہو۔ کیوں کہ موجودہ حکمرانوں کو جمہوریت پسند نہیں ہے وہ جمہوریت کواپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، اسے ختم کرنے کے درپے ہیں، اس کیلئے دلفریب اوردل رباجھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، طرح طرح کے پرفریب نعرے خلق کررہے ہیں تاکہ ختم ہوتی جمہوریت لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔ جمہوریت کے پہلے ستون سے لے کر چوتھے اور آخری ستون تک اڈانی اور امبانی کی عمارت کو مستحکم اور بلند و بالا رکھنے کے کام پر لگادیاگیا ہے۔یعنی مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا سبھی مل کر اڈانی اور امبانی کی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ آئینی ادارے بھی اجارہ داری کی سیاست اور صنعتی گھرانوں کیلئے کام کرنے میںپیش پیش ہیں۔ ایک طرف عدالت عظمیٰ بابری مسجد کی شہادت کو غیر قانونی اور غلط قرار دیتی ہے تو دوسری جانب مندر کی تعمیر کاراستہ بھی صاف کردیا جاتا ہے تاکہ اجارہ داری کی سیاست کو فروغ ملتا رہے۔ کثرت میں وحدت اور تنوع والے ملک میں این آر سی، سی اے اے اور یکساں سول کوڈ کی بات ہورہی ہے تو نوٹ بندی جیسے غیر عقلی اور عوام دشمن فیصلوں پر عدالتیں تصدیق کی مہر بھی لگارہی ہیں۔حجاب ختم کرنے کی حیوانی خواہش کو بھی سند جواز فراہم کیاجارہاہے۔
اپنی غلط کاریوں کو خوش نما جواز کے گل بوٹوں سے مزین کرکے ملک کے غریب عوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ سماج کے اصل پالن ہار یہی سرمایہ دار اڈانی اور امبانی ہیں جو صنعت لگاتے ہیں اور غریبوں کو اجرت دیتے ہیں۔اگر یہ اڈانی اورامبانی نہ ہوں اور صنعتیں نہ لگائیں اور عوام کو روزگار نہ دیں تو نہ یہ ملک چل سکتا ہے اور نہ سماج ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عالمی ادارے حکومت کے اس شوخ، چنچل اور دلفریب جھوٹ کا پردہ فاش کرکے برہنہ اور مکروہ حقیقت اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ہندوستان کے موجودہ سرمایہ دار، صنعت کارا ور حکمراں اس ملک پر ایک ایسا بھاری بوجھ بن چکے ہیںجسے چاہ کر بھی عوام اتارنہیں سکتے ہیں۔ صنعت کاروں کی لوٹ مار کا جو حال ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیںہے۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے، عوام کے اربوں روپے لے کر سرمایہ دار اور صنعت کار فرار ہوجاتے اور حکومت اصولوں کی سیاست، بدعنوانی کاخاتمہ، قانون کی بالادستی، انصاف کی کارفرمائی، سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے ہی وضع کرنے میں مصروف رہتی ہے۔سماجی تفریق کابھیانک خلیج ملک کے حسن کو گہنا چکا ہے۔عوامی ملکیت اونے پونے سرمایہ داروں کو بیچی جارہی ہے۔ آج چند ایک سرمایہ دار ملکی آبادی کی 80 فیصددولت پر قابض ہیں۔ دولت کا یہ ارتکازملک میںمصائب، جبر و ظلم، بے گار، جہالت اور ذہنی پسماندگی کا سیل رواں لے آیا ہے۔ سرمایہ داروں کی دولت میں مسلسل اضافہ آبادی کی اکثریت کے مسائل میں لگاتار اضافہ کررہاہے اور ان کی زندگیوں کو جہنم بنا ئے ہوئے ہے۔ عوام کے جسم و جان پر ہی نہیں بلکہ ان کے شعور اور احساس پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، ان کی آنکھوں سے وہ سہانے سپنے بھی نوچ لیے گئے ہیں جو کبھی لوگوں نے اپنی زندگی کے بارے میں دیکھ رکھے تھے۔
رہی ملک میں ختم ہوتی جمہوریت کی بات تو اسے بی بی سی پر انکم ٹیکس کے چھاپے سے حکومت نے سند تصدیق دے دی ہے۔ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے انسانیت دشمن فساد میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے کردار سے متعلق دستاویزی فلم کے نشریہ پر پابندی اور فلم بنانے والے بی بی سی پر انکم ٹیکس کا چھاپہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہندوستان میںجمہوریت ختم ہورہی ہے اور مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنا حکومت کا پسندیدہ عمل بن گیا ہے۔ ویسے بھی اظہار رائے کی آزادی کے معاملہ میں ہندوستان180ممالک کی فہرست میں 150ویں پائیدان پر آچکا ہے۔ سیاسی طور پر متعصب میڈیا کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔
ہنڈن برگ اور جارج سوروس نے جو کچھ کیا اور کہا وہ ’ہندوستان پر غیر ملکی حملہ ‘ نہیں بلکہ حکومتی فریب کے تہہ در تہہ نقابوں میں لپٹے چہروں کو بے حجاب کرنا ہے۔
[email protected]