محمد حنیف خان
ترقی کی کوئی منزل نہیں،وہ مستقل آگے کی طرف سفر کرتی ہے۔لیکن وہ اپنے جلو میں بہت سی دشواریاں اور پریشانیاں بھی لے کر آتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا ترقی کے اس مقام تک پہنچ چکی ہے جس کے بارے میں نصف صدی قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔عالمی تناظر میں اگر اس کو دیکھا جائے تو اس پوری ترقی کی بنیاد نیٹ ورکنگ ہے،جس نے پوری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ’گلوبل ولیج‘کی اصطلاح بھی اب بے معنی اور بونی محسوس ہوتی ہے کیونکہ ترقی اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔اس ترقی کی چاہ نے ہم سے بہت کچھ چھینا بھی ہے جس میں معاشرتی نظام اور ہمارے جذبات سب سے اوپر ہیں۔یہاں تک تو بات کسی حد تک ٹھیک تھی جسے دنیا نے برداشت بھی کیا لیکن اگر بات زندگی اور موت تک پہنچ جائے تو بھلا ایسی ترقی کے کیا معنی جو انسانی زندگیوں کو بھی اپنا نوالہ بنالے،پھر اس ترقی سے فائدہ کون اٹھائے گا؟انسانی جانوں کی قیمت پر ترقی بے معنی ہوتی ہے خواہ کوئی ایک جان ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر معروضی تحقیق میں یہ ثابت ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر جان گئی ہے تو ایک طرف جہاں خطرہ سبھی کے لیے بڑھ جاتا ہے، وہیں اس شخص کی زندگی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جس کے وجود کو اس نے مٹادیا ہے۔کسی کے لیے وہ محض ایک عدد ہو سکتا ہے مگر خود اپنے لیے اس کے وجود کے خاتمہ کے بارے میں غور کریں تو خطرناکی سمجھ میں آتی ہے۔
عدلیہ اور حکومت دونوں کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو ترقی معکوس کی طرف لے جانا ہے یا پھر وہ راہ اختیار کرنی ہے جس سے انسانوں کے ساتھ ہی چرند و پرند اور ماحولیات کو منفی اثرات سے بچا کر محفوظ ترقی سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مفاد عامہ میں رضاکارانہ کام کرنے والے سائنسدانوں کو بھی سامنے آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مثبت و منفی اثرات وقت سے پہلے سامنے آسکیں۔یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے دباؤ کے بغیر تحقیق کی جائے۔
سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس میں 5جی نیٹ ورک کو اس وقت تک روک دینے کی گزارش کی گئی ہے جب تک تحقیق کے بعد یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کے نقصانات نہیں ہیں اور حکومت اس بات کا اعلان نہ کردے کہ اس نیٹ ورک سے انسانی جسم کو کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔اس عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدلیہ سرکاری ایجنسیوں کو یہ حکم دے کہ وہ جانچ کرکے پتہ لگائیں کہ 5جی صحت کے لیے کتنا محفوظ ہے۔بادی النظر میں یہ عرضی بھی ایک عام عرضی کی طرح محسوس ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کے باطن میں جھانک کر دیکھا جائے اور عرضی گزاروں کی تشویش پر غور کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ واقعی وہ بیدار لوگ ہیں جو انسانی صحت کے تئیں اتنا سرگرم اور بیدار ہیں۔ چونکہ نیٹ ورک کا دائرہ محدود نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس دائرے میں محض وہ تین افراد(اداکارہ جوہی چاؤلہ،ویریش ملک،ٹینا واچچھانی) ہی آنے والے تھے جنہوں نے عدلیہ سے اس پر روک لگانے کی اپیل کی ہے۔ہندوستان میں 5جی ابھی ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں اس نیٹ ورک کا آغاز ہوا ہے، اس سے قبل امریکہ،یوروپ،چین اور جنوبی کوریا وغیرہ میں اس نیٹ ورک کی شروعات ہوچکی ہے لیکن ان ممالک کا صحت نظام ہمارے صحت نظام سے کئی گنا بہتر ہے۔جب کسی ملک کا صحت نظام ماڈرن اور اسمارٹ ہوتا ہے تو خطرات مول لینے میں بہت بڑا مسئلہ سامنے نہیں ہوتا ہے لیکن جہاں بنیادی علاج بھی میسر نہ ہو وہاں اس طرح کے تجربات نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔5جی کے بارے میں ایک بات اور سامنے آئی تھی کہ اس سے کووڈ 19تیزی سے پھیلتا ہے جس کے بعد حکومت کو اس پر صفائی دینی پڑی تھی اور برطانیہ میں تو اس کے ٹاوروں پر عوام نے حملہ کردیا تھا،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کسی بھی ایسی ترقی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں جو ان کی جان پر بن آئے۔
جہاں تک بات اس تکنیک سے فائدے کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تکنیک کے استعمال میں آنے سے یہ دنیا ترقی کی ایک نئی جست لگائے گی،اس ٹیکنالوجی سے انٹر نیٹ کی اسپیڈ بہت تیز ہوجائے گی، فی سکنڈ دس گیگا بائٹ منتقل ہوسکتی ہے۔5جی کو تکنیک کی دنیا میں ایک انقلاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے،جس سے ٹیلی سرجری، مصنوعی انٹلیجنس،بغیر ڈرائیور والی کار جیسی ترقیات کو مزید ترقی دی جا سکے گی۔4جی نیٹ ورک تھری جی سے دس گنا تیز تھا مگر 5جی فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی کے ساتھ کام کرے گامگر خطرہ اس بات کا ہے کہ اس سے نکلنے والی شعاعیں انسانی جسم کو کینسرزدہ نہ کردیں،اس سے دوسرے امراض میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ہندوستان کے یہ عرضی گزار سائنسداں نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کو فکر کیوں لاحق ہوئی؟اولاً خود ان پر مرتب ہونے والے برقی شعاعوں کے اثرات ہیں جیساکہ جوہی چاؤلہ کے معاملے میں سامنے آیا، اسی طرح سے وہ رپورٹس بھی اس کی وجہ بنی ہیں جو 5جی سے متعلق تحقیقات کے بعد سامنے آئیں۔
2019میں250سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اقوام متحدہ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس پر عالمی ادارہ صحت نے بھی دستخط کیے تھے کہ اس سے انسانی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔جن امراض کے بارے میں ان سائنسدانوں نے اقوام متحدہ کو خبر دار کیا تھا، ان میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، ذہنی تناؤ، مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام میں خرابی،یاد داشت میں کمزوری اور اعصابی تناؤ وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح بچوں پر اس کے مضر اثرات کے مرتب ہونے کا خطرہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق چونکہ بچوں کا سر چھوٹا ہوتا ہے اور ہڈیاں بھی نرم اور کمزور ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے ان پر جلد اور زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔فائیو جی کی شروعات کے بعد کوئی انسان،چرند و پرند یہاں تک کہ نباتات و جمادات تک اس کی ریڈیائی شعاعوںکی زد سے نہیں بچ سکیں گے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوگی کہ نیٹ ورکنگ نظام کو اتنا مضبوط بنادیا جائے کہ ریڈیائی شعاعوں کے دوش پر ترسیل و موصول میں کسی طرح کی دشواری نہ آئے۔درخواست میں بلجیم کی وزیر ماحولیات سیلین فریماکا 5جی سے متعلق وہ بیان بھی درج کیا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’بریسیلس کے لوگ ’گنی پگ‘ (تجربات کرنے کے لیے چھوٹے جانور) نہیں ہیں جن کی صحت کو منافع کے لیے فروخت کردیا جائے۔‘‘
نیٹ ورکنگ کی دنیا پر پرائیویٹ کمپنیوں کا پوری طرح سے قبضہ ہے، سرکاری کمپنیاں برائے نام اس شعبے میں کام کر رہی ہیں، ایسے میں زیادہ منافع اور زیادہ صارفین کے لیے ہمہ وقت ان کمپنیوں میں مقابلہ آرائی رہتی ہے۔اصول و ضوابط کے باوجود یہ کمپنیاں عوام کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتی ہیں، ایسے میں سوچا جا سکتا ہے کہ 5جی کے آغاز کے بعد نیٹ ورکنگ نظام کا کیا عالم ہوگا، اس سے انسانوں کے ساتھ پرندوں اور چھوٹے چھوٹے ذی حیات اور ماحولیات کے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ایک طرف حکومتیں پرندوں کو محفوظ کرنے کا پروگرام چلارہی ہیں تو دوسری جانب اس طرح کی ترقی معکوس کو فروغ دے کر خود ان کے لیے خطرہ پیدا کر رہی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق برقی مقناطیسی شعاعیں جانوروں اور پودوں کو بھی متاثر کررہی ہیں۔حکومت نے کورونا سے متعلق تو اپنی صفائی پیش کردی تھی مگر اب اس کو تحقیق کی بنیاد پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ 5جی نیٹ ورک صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔چونکہ عالمی سطح پر جو رپورٹس اب تک شائع ہوئی ہیں، ان میں منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا ہے،بعض میں منفی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور بعض میں مثبت کو۔ایسے میں حکومت کو ہندوستان کے تناظر میں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سے فائدے زیادہ ہیں یا نقصانات۔اس کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ ہندوستان کی آبادی کا کثیر حصہ ناخواندہ ہے،نئی بیماریوں سے تو وہ بالکل آگاہ نہیں ہے اور پرانی بیماریوں کے تئیں وہ بیدار نہیں ہے،کچھ اگر کسی طرح اسپتال بھی پہنچ جاتے ہی تو ان کو ضرورت کے مطابق سستا علاج مہیا نہیں ہوپاتا ہے۔حکومت متعدد اسکیموں کے مطابق صحت انشورنس دیتی ہے مگر ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، ایسے میں اسے صرف حال کو پیش نظر نہیں رکھنا ہوگا بلکہ حال سے کہیں زیادہ مستقبل کو اسے سامنے رکھنا ہو گا۔
عدلیہ اور حکومت دونوں کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو ترقی معکوس کی طرف لے جانا ہے یا پھر وہ راہ اختیار کرنی ہے جس سے انسانوں کے ساتھ ہی چرند و پرند اور ماحولیات کو منفی اثرات سے بچا کر محفوظ ترقی سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مفاد عامہ میں رضاکارانہ کام کرنے والے سائنسدانوں کو بھی سامنے آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مثبت و منفی اثرات وقت سے پہلے سامنے آسکیں۔یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے دباؤ کے بغیر تحقیق کی جائے ورنہ دنیا کی نظر آج صرف ذاتی منافع پر ہوتی ہے اور غریب تو اس کی فہرست میں ہوتا ہی نہیں ہے مگر بد قسمتی سے ہندوستان دستاویزی سطح پر کہیں بھی ہو حقیقت میں آج بھی وہ غریبوں کی اکثریت والا ملک ہے جہاں کا صحت نظام پوری طرح سے ادھڑا ہوا ہے۔ایسے میں کسی بھی طرح کا نیا تجربہ جس میں منفی اثرات کا خدشہ زیادہ ہو، صرف غریبوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔
[email protected]