پروفیسر علی جاوید انصاف پرست تھے:عقیل احمد

0

نئی دہلی،(یو این آئی)علی جاوید بہت ذہین تھے ان کی یادداشت بھی اچھی تھی، بے شمار اشعار انھیں ازبرتھے۔ان کے پسندیدہ شاعر فیض احمد فیض اور حبیب جالب تھے۔ ان خیالات کا اظہار غالب اکیڈمی کے سکریٹری عقیل احمد نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پی ایچ ڈی اورایم فل کے مقالے یکسر منفرد تھے۔برطانوی مشترقین اور تاریخ ادب پر تحقیق کے سلسلے میں انھوں نے برطانیہ کا دورہ بھی کیا تھا۔جعفر زٹلی پر بھی ان کا اچھوتا مقالہ ہے۔سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود لکھنے پڑھنے کاکام مسلسل کرتے رہے۔ان کی سیاسی تقریریں بھی ادب سے خالی نہیں ہوتی تھیں۔ ترقی پسند شعرا کے اشعار سے وہ اپنی تقریر کی تاثیر کو بڑھاتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ غالب اکیڈمی میں انھوں نے2020میں غالب اور ترقی پسندی پر لیکچر دیا تھا،وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قومی صدر تھے۔جس میں صرف اردو،ہندی ہی نہیں تمام ہندوستانی زبانیں شامل ہیں ان سب میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخیں موجود ہیں ان کے ذمے داران سے علی جاوید براہ راست وابستہ تھے۔مزدور تنظیم سے بھی ان کا تعلق تھا۔دہلی یونیورسٹی کی اساتذہ تنظیم ڈوٹا میں بھی وہ سرگرم رہے ہیں۔طلبا اساتذہ سماج کے استحصالی طبقات اور غریبوں کے لیے وہ مختلف پلیٹ فارم سے آواز اٹھاتے تھے۔ دوسروں کی مدد کے لیے وہ خود کو بھول جاتے تھے۔ انصاف کی لڑائی وہ سب کے لیے لڑتے تھے۔دل کے مریض تو تھے۔برین ہیمرج کا شدید حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔12/ اگست کو میکس میں داخل ہوئے13/ اگست کو ان کا آپریشن ہوا۔دوچار دن بعد پنت اسپتال منتقل کیا گیا یہاں31/ اگست2021کی رات کو ان کا انتقال ہوگیا۔یکم ستمبر کو دہلی کے بٹلہ ہاؤس قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ان کے انتقال سے اب تک مختلف جماعتوں،رہنماؤں،تنظیموں کی طرف سے تعزیت کاسلسلہ جاری ہے۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ علی جاوید اردو ہندی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی زبانوں میں مقبول تھے۔ان کے انتقال سے پیدا خلا کا پر ہونا مشکل ہے۔
خیال رہے کہ سی پی آئی کے قد آوار رہنما اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے قومی صدر پروفیسر علی جاوید نے سرسٹھ سال کی عمر میں اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی آگئے۔بچپن میں ہی ان کے والد کا انتقال ہوگیاتھا۔علی جاوید کے چھوٹے بھائی پرویز اور خورشید انور تھے۔سایہ پدری سے محروم ہونے کے بعد ان کی پرورش ان کے چچا نے کی۔بھائیوں میں بڑے ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بڑی تھیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاست میں بچپن سے ہی سرگرم رہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں وہ اے آئی ایس ایف سے وابستہ تھے۔ لیکن ان کی دوستی اس وقت جے این یو میں سرگرم مختلف تنظیموں کے طلبا سے تھی۔ان کے دوستوں میں شاہد پرویز،دیوی پرساد ترپاٹھی، سیتا رام یچوری،اجے پٹنائک مالاکار،ایش مسرا وغیرہ تھے۔علی جاوید طلبا کے مسائل کو حل کرنے میں بلاتفریق تنظیم پیش پیش رہتے تھے۔جے این یو سے ایم اے ایم فل پی ایچ ڈی کرکے ذاکر حسین میں لکچرر ہوگئے اور پھر وہاں سے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔دوسال قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ڈاکٹر عقیل احمد نے آخر میں کہا کہ غالب اکیڈمی کی منتظمہ کمیٹی ان کے انتقال کو اپنا ذاتی خسارہ سمجھتی ہے۔ان کی مغفرت کے لیے دعاگو ہے اور اہل خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS