ڈاکٹر ریحان اختر،علی گڑھ
دنیا کا ایک فطری نظام ہے کہ اس فانی دنیا کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہیں اور انسانی زندگی کے اندر مختلف نشیب و فراز آتے ہیں، حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے انسان کبھی ششدر و پریشان نظر آتا ہے تو کبھی خوش اور حشاش بشاش ،کبھی درد و کسک تو کبھی پر مسرت و شادماں ،کبھی آسودہ و غم میں تو کبھی شاداں و فرحاں نظر آتا ہے ۔ انسان جس وقت سے دنیا میں اپنے سفر زندگی کا آغاز کرتا ہے تو یہ مذکورہ حالات اس کے ساتھ ساتھ ،قدم بہ قدم اس کے سفر کا ساتھی مقدور ہو جاتی ہیں یہ حالات بلا قید مذہب سب کے لیے یکساں ہے ۔
لیکن جب ہم آج کے حالات کا مطالعہ و جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آج کے حالات امت مسلمہ کے لیے سخت ترین اور امتحان و آزمائش سے پر ہیں ملت اسلامیہ عالمی اورملکی دونوں سطح پر نہایت بے کسی اوربے بسی کے دورسے گذررہی ہے ،آئے دن کوئی نہ کوئی نئی مصیبت درپیش ہوتی ہے جو آزمائش وامتحان کی زنجیر میں نئے حلقوں کااضافہ کرجاتی ہے۔ ہر ذی شعور شخص اس بات سے واقف ہے کہ کیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے اس وقت جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے خواہ بات وطن عزیز کی کریں یا دیگر ممالک جیسے فلسطین ،برمہ وغیرہ کی ، حالات اس سے پہلے بھی خراب ہوتے تھے دنگا و فسادات ہوتے تھے دوکان ، مکان جلتے اور نقصان ہوتا تھا اس کے بعد حالات پھر سازگار ہو جاتے تھے لیکن اب معاملہ اس کے بالکل بر عکس نظر آتا ہے اب تو مختلف حیلوں سے اسلامی شعائر کو ہدف اور ٹارگیٹ کیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں ۔ فلسطین میں بھی حالات کچھ ایسے ہیں کہ وہاں کی مسلم عوام رمضان کے مقدس مہینے میں بھی گولی باری ، بمباری اور طرح طرح کے ظلم سے دوچار ہیں ۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا جائے ؟ جب اس تعلق سے ہم تدبر و تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح ہماری رہنمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال قبل اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ساتھیوں پر کیسے سخت حالات آئے ہوں گے کہ جس کے سبب آپ کو آزردہ ،اداس ،مغموم ،رنجیدہ اور شکشتہ دل کے ساتھ اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ کو خیر آباد کہہ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنی پڑی ہو ، یقینا آج ہمارے سامنے جو حالات ہیں ان کا اگر اس دور کے حالات سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں ایک آس حوصلہ، عزم و استقلال اور امید کی ایک کرن نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نا موافق حالات کا مقابلہ کر کے کیسے حالات سازگار اور موافق بنائے؟ لہذا نامساعد حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں ہر مرض کا تشفی بخش علاج اور ہر ہر درد کی دوا آسانی سے مل جاتی ہے ۔ ملاحظہ ہو کہ سیرت النبی میں کیا رہنماء ملتی ہیں ۔ قارئین آج کے سخت، مشکل اور چلینجز سے پر حالات کے تدارک کے لیے ہمیں چودہ سو سال پہلے مکہ مکرمہ کے حالات کو سامنا رکھنا پڑیگا کہ جب اس وقت کے انسانی سماج کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو چکا تھا ،انسانی بد بختی اپنے پنجے جمائے ہوئے تھی اس دور میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس سے انسانیت رسوا نہ ہوئی ہو ، ایسے وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی آپ نے جب انسانیت کو تاریکی سے روشنی کی طرف دعوت دی تو وقت کے جاہل اور انسان و معاشرہ کے دشمنوں کو بڑی تکلیف ہوئی اور انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیسا نا روا اور ظالمانہ سلوک کیا تاریخ اور سیرت کی کتابیں ان واقعات سے بھری پڑی ہیں ، تکلیف اور پریشان کن جتنے ذرائع ہو سکتے تھے آپ کے ساتھ وہ تمام کئے گئے کہیں آپ کی گردن پر اوجھ رکھا گیا، کوڑا پھینکا گیا تو کہیں آپ کو ساحر اور مجنون جیسے ناموں سے پکارا ، آپ کے ساتھیوں کو گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا ان کو سخت سے سخت تکالیف میں مبتلا رکھا گیا اوو سماجی بائکاٹ کا اعلان کر کے تین سال تک شعب ابی طالب میں مقید رہنے پر مجبور کیا گیا غرض ہر طرح سے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا کہ مسلمانوں کو ان کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ مکرمہ کو خیر آباد کہنا پڑا اور مدینہ کو اپنا مسکن بنانا پڑا کتنے سخت اور پریشان کن حالات ہوں گے ، آج کے حالات کی پس پردہ وجوہات کم و بیش وہی ہیں جو اس وقت تھی لیکن حالات بحرحال پریشان کن ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل اور چلینجز سے پر حالات سے نمٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی کہ جس نے عرب کے بدو اور جہلا کو جہاں بانی کے گر سکھائے تھے جس نے ان لوگوں کہ جن پر بادشاہی و حکمرانی کرنا کسی کو پسند نہ تھا انہیں پورے عالم کا حکمران بنا دیا تھا جس طرح آپ کی سیرت اس وقت بادشاہی ، امن سکون کی گواہ بنی آج بھی اسی سیرت نبوی کو نسخہ شفا کے طور پر عمل میں لانا ہوگا۔ ذیل میں ان تدابیر پر مختصرا روشنی ڈالی گئی ہے ۔
صبر: آدمی یہ ذہن بنالے کہ ہمیں اللہ کوراضی رکھنا ہے،اورہر حال میں اس کے دین پر مضبوطی سے جمناہے، اورپھر اس کے لیے خواہشات کی قربانی دینی پڑے، مفاد کی قربانی دینی پڑے، جان ومال ، کھیتی وکاروبار کا نقصان برداشت کرنا پڑے ، دشمنوں کی طرف سے دلخراش طعنے سننے پڑیں اورمخالفتوں کا سامنے کرنا پڑے، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ برداشت کرے، اوردین پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے ،محکومیت اورمظلومیت کے دورسے صبر کی صفت سے آراستہ ہوئے بغیر کامیابی کے ساتھ نکلا نہیں جاسکتا،اہل حق کا قافلہ جب بھی آزمائشوں سے دوچار ہواہے انھیں صبراستقامت اورپامردی کی تلقین کی گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے سخت سے سخت حالات میں کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا یہی وجہ ہے کہ کچھ وقت کے بعد حالات نے کروٹ لی اور وہ مسلمانوں کے حق میں معین و مددگار ثابت ہو ا موجودہ حالات میں بھی ہمیں صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑ کر چلنے کی ضرورت ہے دین پرعمل کرنے کی راہ میں جوپریشانیاں پیش آئیں ، شریعت پرچلنے میں جن مشکلات کا سامنا ہو، مسلمان اورکلمہ گوہونے کی وجہ سے جوجوناگواریاں اورنقصان گوار ا کرنا پڑے اس پر ہمت ہارنے اور ناامید وپریشان ہوکر شکستہ خاطر ہونے کے بجائے اللہ سے ان مصیبتوں پراجر وثواب کی امید رکھے ، آزمائشوں کو گناہوں کے لیے کفارہ اورنیکیوں میں اضافہ کا ذریعہ سمجھے اور چونکہ اللہ کا وعدہ بھی صابرین کی مدد کا ہے ۔
قومی و نسلی اختلافات کا سد باب : یہ ایک ایسی وبا ہے جو جو کسی بھی معاشرے میں اکسیر کا کام کرتی ہے اور جو اختلافات ، لڑائی چھگڑے اور دنگے فسادات کا بڑا سبب بن کر سامنے آتی آج سے چودہ سو سال قبل یہ بیماری اپنے عروج پر تھی لیکن چونکہ آپ کی بعثت رحم للعالمین بن کر ہوئی تھی اور رسول اکرم ؐ اِس طرح کے تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے اس لیے آپ نے حج الوداع کے خطبہ کے موقع ان تفاخر و امتیازات کا قلعہ قمع کیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ ان امتیازات کی اللہ کے یہاں کوئی مقبولیت نہیں ہے مقبولیت کا کا پیمانہ صرف اور صرف تقوی قرار پائے گا ۔
غیر مسلوں سے معاہدات : مکہ سے مدینہ پہونچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بسنے والے قبائل اوس و خزرج اور یہود و نصاری کے ساتھ معاہدے کئے ، آپسی بھائی چارگی ، تناصر و مدد اور رواداری کی دستاویزات مرتب کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو تبلیغ دین میں آسانی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا عرب کلمہ توحید کا قائل ہوگیا ۔ آج بھی ہمیں غیر مسلوں سے معاہدات کرنے چاہئیں تاکہ دعوت دین کے لئے حالات سازگار ہوں اور اسلام کے تئیں جو بیجا اعتراضات ہیں ان کو دور کیا جا سکے اور اسلام کی روشنی سے پورے عالم کو منور کیا جا سکے ۔
نبوی اخلاق کو عام کرنے کی ضرورت: حالات حاضرہ کا سب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے رشوت ، چوری ، سود ،جھوٹ ، تکبر ، حسد ، کینہ ،بد بنانی ،فحش کلامی اور چغل خوری یہ تمام اخلاقی برائیاں عام ہیں ۔ ہر عام خاص مسلم و غیر مسلم اس بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی و شناعت اور اس کے دنیوی و اخروی نقصانات کو معقول انداز میں بیان کیا جائے، تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو، اس کے ساتھ رسول اللہ ؐ کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیا جائے اور ان کو اختیار کرنے کی تلقین کی جائے کہ کیسے ایک بڑی تعداد آپ کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئی آج بھی اگر ہم اپنی زندگیوں میں آپ ؐکے اخلاقِ حسنہ کو شامل کر لیں تو ہر طرح کے مصائب و مشکلات کا سامنا بآسانی کر سکتے ہیں ۔
دعا و استغفار کا اہتمام: انابت ،رجوع الی اللہ، دعا اورذکر واستغفار درحقیقت جوہر عبادت اورروح بندگی ہے، یہ وہ پاکیزہ صفات ہیں جوسفلی اورحیوانی جذبات سے بوجھل انسان کوملکوتی انوار میں رنگ دیتی ہیں اور بندے کواللہ کے بہت قریب کردیتی ہیں ، یہ بندے جب کسی کام کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توان کواللہ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے،وہ جب اپنے کوپکارتے ہیں توان کی پکار سنی جاتی ہے،اللہ انھیں وہ بصیرت عطا کرتا جس سے مشکل گھڑی میں نجات کی راہیں واضح ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشکل حالات کے پیش نظر دعائیں منقول ہے۔ آج بھی ہمیں کسی بھی مشکل صورت میں اللہ سے استغفار اور مدد کی درخواست کرنے کی ضرورت ہے ۔
الغرض: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ صرف مذہبی اہمیت کی حامل ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سائنسی، سیاسی، عمرانی اور نفسیاتی معاملات میں بھی بھٹکی انسانیت کی رہنمائی کا جوہر رکھتی ہے۔ بڑے سے بڑے فلسفی ہوں یا سائنسدان، حکیم ہوں یا مفکر نجات نہیں پا سکتے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنے لئے مشعل راہ نہیں بناتے۔