فرقہ وارانہ کشیدگی کو منطقی انجام کی طرف بڑھنے سے روکا جائے

0

عبدالسلام عاصم

جہانگیر پوری واقعہ کی برقی اور اشاعتی رپورٹنگ مظہر ہے کہ خبر نگاری (تقریباً ہر زبان کی میڈیا میں) اب سنگین سے سنگین منظر نگاری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا اور جو ہوا وہ سیاسی، سماجی اور انتظامی طور پر کن ناکامیوں کا نتیجہ تھا اس پر معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ قارئین اور ناظرین کی توجہ مبذول کرانے کی اب خال خال ہی کوشش کی جاتی ہے۔ تازہ سانحے کی جائے واقعہ سے خبر نگاری اور دونوں فرقوں کے مقامی لیکن غیر اشتہاری ذمہ داروں سے بات چیت کرنے والے بعض حقیقی نامہ نگاروں نے آف دی ریکارڈ بات چیت میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ پہلے جہاں روایتی فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر بات بگڑنے اور نوبت تصادم تک پہنچنے کے بعد زائد از ایک ذمہ دار حلقوں کی جانب سے حالات پر قابو پانے کی مربوط کوشش کی جاتی تھی، وہیں اب ایسا لگتا ہے کہ فساد برپا کرنے کی منظم کوشش کی جاتی ہے اورذمہ دار حلقے اس سے بلیم گیم کیلئے استفادہ کرتے ہیں۔
اس وقت ملک میں نفرت کی جو لہر چل رہی ہے اُس کی زد میں سر دست تو صرف ایک فرقہ نظر آتا ہے لیکن رُجحان سے پورے ملک کے زد میں آ جانے کا اندیشہ ہے۔ مقتدرات بے خبر نہیں لیکن نیم دِلانہ ردعمل سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے نقصان سے بھی فائدہ اٹھانے کی سوچ ذہنوں پر کسی نہ کسی طورحاوی ہے۔ حکمراں حلقے کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ملک میں موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی کیلئے نام نہاد سیکولرزم کے علمبردار ذمہ دار ہیں، جن کا عہد ان حوالوں سے انتہائی داغدار رہا ۔ بے شک سابقہ حکومتوں نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تعلیمی نصاب کا اٹوٹ حصہ بنانے کے بجائے نظریاتی تعلیمی اداروں کی جس طرح سر پرستی کی وہ قطعی طور پر ناقابلِ معافی ہے لیکن اِس حقیقت بیانی تک محدود رہ جانے سے موجودہ تکلیف دہ منظر نامے کو بدلا نہیں جا سکتا۔ فوری تقاضہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت ناخوشگوار منظر نامے کو سخت انتظامی کارروائی سے یکسر بدلے اور پھر فرقہ وارانہ منافرت کا نفسیاتی علاج کے ذریعہ سد باب کیا جائے۔
موجودہ انتظامیہ حالات سے جس طرح نبرد آزما ہے اُس سے یہ تاثر بھی ملتاہے کہ شاید سب کو اپنی اننگ کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ بالفرض ایسا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ جہانگیر پوری میں صرف انسانیت کش جرم کا ارتکاب کرنے والوں نے ہی سفاکی کا مظاہرہ نہیں کیا، واقعات کو محدود مفادات کے لئے بھنانے والی مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ میڈیا کے ایک بڑے حلقے کا رول بھی صحتمند نہیں۔خبر وںکے صفحات جہاں واقعات کی غیر ذمہ دارانہ خبر نگاری سے بھرے ہیں، وہیں ادارتی صفحات پر حسبِ توفیق رد عمل کی بھرمار ہے۔ سیدھے سادے قاریوں کے پاس ہراساں ہو کر رہ جانے کیلئے کچھ نہیں بچا۔ ایسے میں قائدانہ ذمہ داری کا بوجھ کون اٹھائے! کہانیوں کے مسیحا کے انتظار سے قوم کو کون باہر نکالے!! ان سوالوں کا جواب یا تو کسی کے پاس نہیں یا سبھی اپنے وقتی کاروبار میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں اِس رُخ پر سوچنے کی فرصت نہیں۔
صنعتی انقلاب سے آئی ٹی انقلاب تک کے سفر میں خارجی محاذ پر جہاں ہم ایک سرکش ہمسائے کی وجہ سے زائد از ایک جنگوں میں الجھے رہے وہیں داخلی محاذ پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل کے ایک سے زیادہ واقعات نے ہمیںاُس تیزی سے آگے نہیں بڑھنے دیا جتنی تیزی سے بعض دوسری اقوام نکل گئیں جو ہمارے ساتھ ہی تجرباتی سفر پر روانہ ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود اگرہم کئی ساتھی ملکوں سے بہتر حالت میں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ملک کی مخلوط تہذیب کی پاسداری کرنے والوں نے اپنا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ اُنہی کی برکت ہے کہ نئی الفی میں قدم رکھنے کے بعدہندوستان اقوام عالم کا تیزی سے ایک باوقار حصہ بننے میں کامیاب رہا ۔ یہ سفر حکومت اور عوام کے اشتراک سے ہی طے کیا گیا ہے۔ بصورت دیگر کووڈ ۔19 کا سامنا کرنے میں ہم بری طرح پچھڑ کر رہ جاتے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عالمی منظر نامے پر سائنس، ٹکنالوجی، سرمایہ کاری اور کاروبار کے میدان میں ہندوستان نے اپنی شراکت کے ذریعے گہری شناخت بنانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ غیروں کی مدد کا صلہ نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی ذہانت اور عملی اشتراک کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے بارے میں مغرب کی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اس خارجی منظر نگاری کیلئے ہم نے داخلی محاذ پر ہی فکر و نظر اور علم و ہنر سے کام لے کرایک پوری نسل کو علم و ہنر کے عصری تقا ضوں سے ہم آہنگ کیا۔ آج دنیا کے ایک سے زیادہ اطلاعاتی اداروں کی کمان ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں تصویر کا دوسرا رخ جس میں اس سچ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ہی نمایاں فرقوں کی کمیونٹی قیادتیں بدستور ماضی گزیدہ اور ماضی گرفتہ چلی آ رہی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف جہاں دنیا کے ایک بڑے حلقے میں لوگ ہمیں رشک اور امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف درون ملک پیش آنے والے فرقہ وارانہ واقعات کا بھی بیرونِ ملک حیرت اور افسوس کے ساتھ نوٹس لیا جانے لگاہے۔ ہم اس لحاظ سے دنیا میں انوکھے ہرگز نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کسی بھی سبب سے ہماری پہچان اُن اقوام کے ساتھ کیوں ہو جو بقائے باہم پر آج بھی یقین نہیں رکھتیں۔ اس سچ سے انکار نہیں کہ ترقی پذیر قوموں کو مسلسل آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے۔ ہندستان بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ اس وقت مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ تنازعات کے واقعات میں جو ایکدم سے اضافہ ہوا ہے وہ انتہائی تشویشناک اور کافی پریشان کن ہے۔ مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی برہنہ نمائش کے ساتھ انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگانا اور پھر بعض مقامات پر جھڑپوں کے بعد مبینہ طور پرانسدادِ تجاوزات اقدام اور متعصب نظر آنے والی کارروائیاں عمل میں لانا کسی طور ملک کے حق میں خوش آئند نہیں ۔
دہلی سمیت ایک سے زیادہ ریاستوں میں پیش آنے والے واقعات ممکنہ طور پر ایک بڑے خطرے کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ درونِ ملک جہاں معاشرتی سلامتی کو تباہ کن خطرہ لاحق ہو سکتا ہے وہیں دنیا بھر میں ان واقعات کی وجہ سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔ ایسے میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور اُن سے نمٹنے کے بظاہر غیر جمہوری طریقے سے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہمارے اسٹریٹجک مفادات کے ساتھ ساتھ سماجی تعاون اور اقتصادی سرمایہ کاری دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی مفاہمت کے ماحول میں بھی اِس سے خلل پڑے گا۔ قومی ذمہ داران کو خوب پتہ ہے کہ کون سے عناصر ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں اور وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی رخی حکمرانی کے ایجنڈے میں خلل ڈال رہے ہیں! کسی بھی حلقے، قوم اور ملک کی ترقی کیلئے سماجی امن اور انصاف اولین شرط ہے۔ ملک کے عام ہندوؤں اور مسلمانوں کو، جو کل کی طرح آج بھی معاشرے میں امن اور خوشحالی کے لئے افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے حق میںہیں، حکومت سے زیادہ سِکشا/تعلیم دینے والے اُن اداروں سے شکایت ہے جہاں علم و ہنر سکھانے کے نام پر طلبا کی ذہنی کنڈیشننگ کی جاتی ہے۔ وہ جب فارغ ہو کر نکلتے ہیں تو خالص نظریاتی بندے بن جاتے ہیں ، روادار انسان نہیں بن پاتے۔ پھریہی نام نہاد تعلیم یافتہ بچے آگے چل کر درسگاہوں/پاٹھ شالوں کے مدرس/ ادھیاپک بن جاتے ہیں یا ملکی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی کرسیوں پر جا بیٹھتے ہیں۔
ذمہ داران کو یہ سمجھنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں مذاہب کا بے جا استحصال کبھی الحاد کی راہ ہموار کردیتا ہے تو کبھی سیکولرزم کے ساتھ غیر اخلاقی زیادتیاں مذاہب سے غیر صحتمند مراجعت کی دہلیز پار کروانے لگتی ہیں۔ یہ انتہائی غیر متوازن صورتحال ہے اور جس معاشرے میں کہیں کوئی توازن باقی نہیں رہ جاتا وہ معاشرہ اپنے ہی جینے والوں پر بوجھ بن جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال کو بدلنے کے عملی خطوط وضع کرنے کیلئے مقامی، ریاستی اور قومی سطح پرایک سے زیادہ ایسی بین فرقہ مجالس تشکیل دینے کی سخت ضرورت ہے جو اشتہاری مجلس پسندوں کے بجائے زندگی کے مختلف شعبوں کے خوش فکر اور عملی نمائندوں پر مشتمل ہوں۔یہ مجالس انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ مثبت تبدیلی کے رُخ پر اشتراک کرے۔ اگر ایسا نہ کر کے فرقہ وارانہ کشیدگی کو منطقی انجام کی طرف بڑھنے دیا گیا تو نسل آئندہ ہمیں بھی بالکل اُسی طرح کبھی معاف نہیں کرے گی جس طرح ہم سابقہ صدی کے ہندو مسلم نزاع سے تقسیم کے رُخ پر انتہائی نامسعودفائدہ اٹھانے والوں کو آج تک معاف نہیں کر پائے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS