یکسانیت کیلئے تیاری

0

انل چمڑیا

وزارت داخلہ سے منسلک پارلیمانی کمیٹی نے پورے ملک کی جیلوں کے حالات اور ان میں اصلاحات کے تعلق سے اکتوبر، 2020میں مطالعہ شروع کیا اور 21ستمبر، 2023کو اپنی رپورٹ سونپ دی۔ اس سے پہلے 26نومبر،2022میں صدر دروپدی نے انہی سوالات کو سپریم کورٹ کے ذریعہ منعقد یوم آئین کے موقع پر اٹھایا تھا جن پر یہ رپورٹ آئی ہے۔ صدر نے ججوں کے سامنے سوال کیا تھا کہ ہم ترقی کررہے ہیں، تو جیل ختم ہونی چاہیے نہ کہ ان کی تعداد بڑھانے کی بات سوچی جائے۔
پارلیمانی کمیٹی نے بھی ہندوستان میں جیلوں میں بڑھتی بھیڑکے مسئلہ پر اپنی سفارشات دی ہیں۔ کمیٹی کے مطابق ’گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستانی جیلوں کے بنیادی ڈھانچہ میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں، لیکن کئی کمیاں ہیں۔ کئی جیلوں میں بھیڑبھاڑ کا مسئلہ ہے، جس سے وسائل پر دباؤ پڑتا ہے، سطح زندگی میں کمی ہوتی ہے اور قیدیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے، مناسب صحت دیکھ بھال کی سہولتوں، صفائی اور غذائیت کی کمی، خستہ حال عمارتیں، تفریحی سرگرمیوں تک محدود پہنچ، دماغی صحت کی مناسب سہولیات کی کمی ہوتی ہے، جیلوں میں زیرسماعت قیدیوں کی بہت زیادہ تعداد، ناکافی کام کرنے والا عملہ اور تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے لیے محدود سہولتیں ہیں۔ یہ کمیاں سماج میں قیدیوں کی اصلاح اور ان کے سماج میں شامل ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، جن سے جرائم اور جرائم کی تکرار کا سائیکل قائم رہتا ہے۔ ان اداروں کے اندر بدسلوکی، تشدد اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی رپورٹوں نے بھی قیدیوں کے علاج اور فلاح کے بارے میں سنجیدہ سوال پیدا کردیے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں:
جیلوں کی اصلاح کیلئے صحت مند معاشرہ ناگزیر

ہندوستان میں 1319جیلیں ہیں، جن کی کل صلاحیت 4,25,609قیدیوں کی ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں 5,54,034قیدی ہیں۔ زیرسماعت قیدیوں کی تعداد 4,27,165ہے اورمجرم قیدیوںکی تعداد 1,22,852 ہے۔ پہلے کے مقابلہ میں جیلوں میں خاتون قیدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جیل میں ضروری تعداد سے تقریباً 30فیصد کم ملازمین ہیں۔ صحت دیکھ بھال کی سہولیات کی کمی اور صحت اور صفائی پر ناکافی توجہ بھی جیلوں کی خراب صورتحال میں تعاون دیتے ہیں۔ کل ملاکر ہندوستانی جیلوں کا نظام کئی مسائل کا سامنا کررہا ہے، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور قیدیوں کے رہنے کی حالت، صحت دیکھ بھال اور بحالی کے پروگراموں میں اصلاح پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی جیلوں میں یہ کوئی نئی صورت حال نہیں ہے۔ صدرجمہوریہ ہند مرمو نے بھی غریبی اور جیل میں قیدیوں کی بڑھتی تعداد کے درمیان رشتہ ظاہر کیا تھا۔
میری ٹائٹلر نے ’ہندوستانی جیلوں میں پانچ سال‘ نام سے مقبول کتاب 1970کی دہائی میں لکھی تھی۔ اس کے بعد جو بھی لکھنے پڑھنے والے لوگ جیلوں میں بند کیے گئے ان میں سے کئی لوگوں نے جیلوں کی حالت، بدسلوکی، مظالم، استحصال، جبر کے رونگٹے کھڑے کرنے والے حالات کا انکشاف کیا۔ ان میں کویتا کرشنن سے لے کر سیما آزاد، امتاشیرین، منیش آزاد اور بھی دسیوں مصنف ہیں۔ ایسی کتابوں کی ایک ساتھ نمائش اور ان پر چرچا ہو تو ہندوستانی جیلوں کے حالات پر ایک مکمل رپورٹ تیار ہوسکتی ہے۔ پوری دنیا میں جیلوں میں بند قیدیوں کی زندگی کے سلسلہ میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ ہندوستان میں یہ نہیں کے برابر ہیں۔ سیاسی قیدیوں کے تعلق سے ضرور مہم کی صورت حال نظر آتی ہے۔ امریکہ کی پروفیسر ایکٹیوسٹ اینجیلا یوان ڈیوس ایک سال جیل میں رہنے کے بعد جب 1972میں الزام سے آزادی ہوئیں تو انہوں نے اپنی زندگی کا ہدف جیلوں کو ختم کرنے کی مہم ہی بنالی۔ پوری دنیا میں یہ مطالعہ کریں تو محض الزام کی وجہ سے لوگ برسوں جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ زیرسماعت قیدی والی ریاستوں میں لکشدیپ ہے، جہاں 100فیصد قیدی زیرسماعت ہیں۔ دہلی اور جموں و کشمیر میں 91فیصد اور بہار میں 89فیصد قیدی زیرسماعت ہیں۔ اترپردیش میں دفعہ436اے کے تحت 30415 قیدی ضمانت کے مستحق تھے لیکن ان میں 711ہی رہا کیے گئے۔ اس سے انصاف، غریبی، جیل میں قیدی کے رشتے واضح کیے جاسکتے ہیں۔ ہندوستان میں ذات، مذہب اور خواندگی سے بھی قیدخانہ کی بھیڑ کا رشتہ جڑا سمجھا جاتا ہے۔ 2015 میں پورے ملک کی جیلوں میں بند قیدیوں میں 55فیصد زیرسماعت قیدی مسلم، دلت یا قبائلی بتائے گئے تھے۔ اس دوران زیرسماعت قیدیوں کی کل تعداد 2,82,076 میں 80,528 ناخواندہ پائے گئے۔ اس کے بعد یہ تعداد پہلے کے مقابلہ میں بڑھی ہے۔ 2021میں تو پارلیمنٹ میں قیدیوں کی تعداد ذات کے لحاظ سے پوچھی گئی تو اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے مشتہر کیا گیا کہ جیلوں میں67فیصد سے زیادہ ہندو قیدی ہیں یعنی دلتوں، قبائلیوں کو تب ہندو کے طور پر پیش کیا گیا جب کہ پارلیمنٹ میں مذہب کے لحاظ سے قیدیوں کے اعداد و شمار طلب نہیں کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:
غیر ملکی جیلوں میں قید ہیں 8 ہزار ہندوستانی

کمیٹی کی رپورٹ جیلوں میں اصلاح کے تحت قیدیوں کے حالات زندگی میں تبدیلی کرنے اور ان کی بھیڑ کم کرنے کی کوشش نہیں نظر آتی۔ اس کے سیاسی مضمرات مختلف نظر آتے ہیں۔ انگریزوں کے زمانہ سے جیلوں میں ساختی تبدیلی کے سلسلہ میں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور مرکزی حکومت نے بھی کمیٹی بنائی ہے۔ جسٹس اے این ملّا کمیٹی (1980)، آر کے کپور کمیٹی(1986) اور نیائے مورتی کرشنا ایّر کمیٹی(1987) خاص ہیں۔ ایّر کمیٹی نے خاتون قیدیوں پر توجہ مبذول کی لیکن کمیٹیوں کے مشوروں کا رشتہ جیلوں میں بھیڑ کو کم کرنے سے نہیں جڑتا۔ بھیڑ کے نام پر عدم تحفظ اور سختی کے انتظام پر زور زیادہ ہوتا ہے۔ اس مصنف نے ابتدائی برسوں میں جیلوں سے نکلنے والے زیرسماعت قیدیوں کے پاس اتنے وسائل دیکھے ہیں، جن سے وہ کچھ دنوں تک گزربسر اپنے دم پر کرسکتے تھے۔ حالات اس قدر بدتر ہوئے کہ جیلوں میں غریب، پسماندہ، دلت، قبائلی قیدیوں کی مسلسل ہونے والی اموات پر کئی خبریں لکھنی پڑی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کا آخرکار ہدف ہندوستان کی جیلوں پر مرکز کی مداخلت کی گنجائش کو وسعت دینا زیادہ نظر آتا ہے۔ 1935سے جیلیں ریاستوں کا موضوع رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات پر زور ہے کہ ہندوستانی جیلوں کی پالیسی اس کے بعد یکساں نہیں رہی۔ انگریزوں کے وقت کے انتظامات کو جمہوریہ کے مطابق نہیں ماننے اور جمہوریہ میں ریاستوں کی خودمختاری اور تنوع کی خصوصیات کے برعکس یکسانیت پر سیاسی سمت کا زور ہے۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS