پڑوسی ملک پاکستان میں ایک اوروزیراعظم اپنااقتدارنہیںبچا سکا ،ویسے پڑوسی ملک کی 75سالہ تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ۔ ابھی تک 29وزیراعظم بنے اورمدت پوری ہونے سے پہلے ہی انہیں کرسی چھوڑنی پڑی ۔وزیراعظم کاسب سے مختصر دور ابراہیم اسمٰعیل چندریگر کا تھا جنہوں نے 2سال سے بھی کم عرصے تک حکومت کی تھی جبکہ سب سے طویل دور 3باروزیراعظم رہ چکے نواز شریف کا تھاجن کی سب سے طویل حکمرانی 4سال 2ماہ رہی۔بے نظیر بھٹو بھی 2باروزیراعظم بنیں لیکن اپنی مدت پوری کرنے میں ناکام رہیں ۔جن حالات میں عمران سرکارچل رہی تھی ،لگ رہاتھا کہ وہ اپنی مدت پوری کرلیں گے ،لیکن اچانک حالات اس طرح تیزی سے بدلے کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ 3سال 7 ماہ اور24دنوں میں انہیں بھی جاناپڑا۔عمران خان نے جاتے جاتے ملک کی سیاست میں ایک اورتاریخ رقم کردی ، وہ یہ کہ عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹائے جانے والے وہ پہلے وزیراعظم بن گئے ۔دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد اورووٹنگ کاسامنا نہیں کیا ، اس سے پہلے ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی چھوڑدی، اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر نے استعفیٰ دے دیا، عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس چھوڑ دیااورتحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ کی رسم اپوزیشن نے اداکی ۔ووٹنگ کے دن صبح سے دیررات تک ہائی وولٹیج ڈرامہ چلا۔قومی اسمبلی کی کارروائی صبح 10بجے شروع ہوگئی لیکن کارروائی ملتوی ہوتی رہی ،دیر رات ووٹنگ ہوئی اورووٹنگ کے وقت ایک طرف سپریم کورٹ ، دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ ، تیسری طرف الیکشن کمیشن دروازے کھلے ہوئے تھے اورچوتھی طرف بدلتے حالات پر فوج کی گہری نظر تھی۔ امریکہ الگ پاکستان کی صورت حال کو مانیٹر کررہا ہے۔
عمران خان نے اپنی سرکار کو بچانے کی آخرتک کوشش کی، ہرطرح کے حربے آزمائے، قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد کھونے کے باوجود آخر تک عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا اوراسپیکر وڈپٹی اسپیکرنے عین ووٹنگ کے وقت استعفیٰ دے دیا ۔پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی کی بغاوت سے اقلیت میں آئی سرکار کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی پیشی کے بعد 3اپریل کو ہی چلی جاتی اگر ڈپٹی اسپیکرآرٹیکل 5کا حوالہ دے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد نہیں کرتے اورقومی اسمبلی تحلیل نہیں کی جاتی،جس کا سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لے کرڈپٹی اسپیکر کے فیصلہ کو کالعدم قراردے کرنہ صرف قومی اسمبلی بحال کردی بلکہ 9اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے ،اِس عمل کے مکمل ہونے تک اجلاس جاری رکھنے اور ووٹ ڈالنے سے کسی رکن کو نہ روکنے کی ہدایت دیدی ۔ اپنے فیصلہ پر عملدرآمدکویقینی بنانے کیلئے عدالت کھلی رکھنے سے عمران خان ایک طرح سے بے بس ہوگئے تھے، انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو اپوزیشن نے ووٹنگ کرکے حکومت گرادی ۔
محض عمران سرکارگرادینے سے پاکستان میں اقتدارکا کھیل ختم نہیں ہوا ، اصل کھیل اب شروع ہوگا،کیونکہ اسمبلی قوانین کے مطابق برطرف وزیراعظم کی جگہ نئے قائد ایوان کا تقرر فوری طور پر کیا جانا ضروری ہے اور قومی اسمبلی سکریٹریٹ نے اس کیلئے اجلاس پیرکے روز 2 بجے طلب کر رکھا ہے ۔مسلم لیگ( ن) کے صدر اور متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف نے قائد ایوان کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔ ادھرپی ٹی آئی نے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی طرف سے شاہ محمود قریشی کوامیدوار بنایاہے۔اگریہ فرض کرلیا جائے کہ اپوزیشن پارٹیاں اقتدارحاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی تو نظریاتی اختلافات کے ساتھ وہ کتنے دنوں تک ایک ساتھ رہ سکیں گی ۔عمران خان کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا الگ بات ہے اورآپس میں ایک دوسرے کی برتری کو تسلیم کرلینا اوراس کی ماتحتی میں کام کرنا یا حکومت چلانا الگ بات ہے۔ماضی میں جب یہ پارٹیاں اقتدار میں شراکت دار نہیں بن سکیں تو آگے کیسے بنی رہ سکتی ہیں ؟سیاسی عدم استحکام ایک طرح سے پاکستان کی سیاست اورحکومت کاجزء لاینفک بن چکاہے جو بدل نہیں پارہاہے ۔جوبھی اگلی حکومت بنے گی وزیراعظم کی فہرست میں نئے نام کا اضافہ کرے گی ۔وہ سرکاربرقراررہی تو صرف سوابرس چلے گی پھر الیکشن ہونا طے ہے ۔
[email protected]
پاکستان میں اقتدارکا کھیل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS