غربت میں کمی کا دعویٰ

0

نیتی آیوگ نے خوش خبری سنائی ہے کہ ملک کے 13.5کروڑ لوگ غربت سے نجات پاچکے ہیںاورغریبوں کی تعداد میں 14.96 فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔انہیں زندگی کی ہر وہ سہولت مل رہی ہے جوملک میں سطح غربت سے اوپر رہنے والے باقی ہندوستانیوں کو حاصل ہے۔ یعنی خوراک، تعلیم، صحت جیسے شعبوں میں یہ افراد خود کفیل ہوگئے ہیں۔نیتی آیوگ کے مطابق 2015-16 اور 2019-21 کے درمیان ملک میں کثیر جہتی غربت میں رہنے والے افراد کی تعداد 24.85 فیصد سے کم ہو کر 14.96 فیصد رہ گئی۔ یعنی 9.89 فیصد نمبروں کی نمایاں کمی آئی ہے۔اس عرصے کے دوران دیہی علاقوں میں غربت 32.59 فیصد سے کم ہو کر 19.28 فیصد پر آگئی ہے۔
نیتی آیوگ کا قومی کثیر جہتی غربت انڈیکس صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی بنیاد پر غربت کی تعریف کرنے والا ایک جامع پیمانہ ہے جس کے تخمینہ کی بنیاد پر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کیلئے اصلاحاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ قومی کثیر جہتی غربت کا اشاریہ صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی تین یکساں وزنی جہتوں میں بیک وقت محرومیوں کی پیمائش کرتا ہے۔ان میں غذائیت، بچوں اور نومولودکی اموات، زچگی کی صحت، اسکول کی تعلیم کے سال، اسکول میں حاضری، کھانا پکانے کی گیس، صفائی ستھرائی، پینے کا پانی، بجلی، رہائش، اثاثے اور بینک اکاؤنٹس شامل ہیں۔
36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور 707 انتظامی اضلاع کیلئے کثیر جہتی غربت کا تخمینہ فراہم کرتے ہوئے نیتی آیوگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کثیر جہتی غریبوں کے تناسب میں سب سے زیادہ کمی اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش، اڈیشہ اور راجستھان میں دیکھی گئی۔اترپردیش میں غریبوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی 3.43 کروڑ لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے، اس کے بعد بہار اور مدھیہ پردیش ہے۔ نیتی آیوگ نے یہ دعویٰ ہندوستان میں تعلیم، صحت اور معیار زندگی کی تین جہتوں کو پرکھتے ہوئے کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غذائیت میں بہتری، اسکول کی تعلیم، صفائی ستھرائی اور کھانا پکانے کے ایندھن نے غربت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آیوگ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بی وی آر سبرامنیم کایہ بھی کہناہے کہ ہندوستان مقررہ وقت سے بہت پہلے 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
نیتی آیوگ کی اس خبر کو بادی النظر خوش خبری سے تعبیر کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ مختلف ذرائع اور مختلف سمتوں سے آنے والے ترقی کے مختلف اعداد و شمار ابہام پیدا کردیتے ہیں اور عوام کو یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ماجرا کیا ہے؟ کیا حقیقت میں غربت کم ہورہی ہے یا پھر انہیں اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں میں الجھایا جا رہا ہے؟غربت کے عروج و زوال کی پیمائش کرنے والے نیتی آیوگ کے ’کثیر جہتی غربت انڈیکس‘میں غذائی قلت پہلے نمبر پر ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ بچوں کی غذائی قلت میں کمی آئی ہے۔
جس عرصہ میں غربت میں کمی کا دعویٰ نیتی آیوگ کررہاہے، اسی عرصہ کیلئے آنے والا پانچواں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (2019-21) بچوں میں غذائی قلت کی تشویشناک صورتحال بتارہاہے۔اس کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 35فیصد بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی بالیدگی میں کمی واقع ہوگئی ہے۔اسی طرح گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان121ممالک کی فہرست میں 107ویں مقام پر ہے یعنی اس سے اوپرکے106ممالک میں بھوک کی صورتحال ہندوستان سے بہت بہتر ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں غذائی قلت کے معاملے میں ہندوستان، افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔کثیر جہتی انڈیکس کی دوسری بنیادوںکے حوالے سے بھی مختلف سروے الگ الگ کہانیاں سناتے ہیں۔ صحت، تعلیم اورروزگار کے اشاریہ نے حال کے دنوں میں جو سیاسی ہنگامے اٹھائے ہیں، اس سے ہر باخبر شہری واقف ہے۔ مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے قوت خرید میںآنے والی کمی نے ضروری اشیا کو عوام کی رسائی سے دور کردیا ہے۔عوام الناس کو زندگی کی بنیادی ضرورت کی تکمیل میں جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ان حالات کے پیش نظر غربت کم ہونے کادعویٰ حقائق سے دور تو نظر آہی رہا ہے۔ملک کے 13.5کروڑ لوگوںکی غربت سے نجات پاجانے کی نویدبھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS