کشمیر پر مثبت پہل

0

جب سے دنیا نے طاقت کی بنیاد پر قبضہ کو غلط ٹھہراتے ہوئے ریاستوں کا اجتماعی نظم قائم کیا ہے سیاسی مفاہمت اور مذاکرات کو عالمی اصول کا درجہ حاصل ہوگیاہے۔ تجربات نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ تشدد کبھی کسی مسئلہ کاحل نہیں ہو سکتا ہے۔جائز مطالبات تک بندوق کی نوک پر تسلیم نہیں کرائے جاسکتے ہیں۔ اب ہرطرح کے تنازعات اور جھگڑے کا نمٹارہ اسی عالمی اصول کے تحت ہوتا ہے۔مسئلہ چاہے کتنا ہی قدیم اور پرانا کیوں نہ ہو اس کے حل کیلئے ’سیاسی عمل ‘کا ہی ہتھیا ر کارآمد ہے۔اس کا ادراک فریقین کو جتنی جلد ہوجائے مسئلہ اسی نسبت سے جلد حل ہوجاتا ہے۔ برسوں پرانے مسئلہ کشمیرکا حل بھی اسی فارمولہ میں پنہاں ہے اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ فریقین بھی اس فارمولہ کو کارآمد سمجھنے لگے ہیں۔اسی سیاسی عمل کو تیز کرنے کیلئے 2برسوں کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیری لیڈروں کا اجلاس بلایا۔اس اجلاس میں ملکی آئین، جمہوریت اور سیکولرزم پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے کم و بیش تمام رہنما شامل ہوئے ہیں۔اجلا س سے قبل طر ح طرح کی باتیں ہورہی تھیں، یہ کہاجارہاتھا کہ کشمیری لیڈران اپنے مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کے بعد اب چین کو دعوت دے رہے ہیں لیکن ان کشمیری قائدین کی اجلاس میں شمولیت نے ان تمام افواہوں کی تردید کردی ہے بلکہ یہ قوی امکان بھی پیدا ہوچلا ہے کہ کشمیرمیں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہوجائیں گے اورعوام کی ایک منتخب حکومت ریاست کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔
5 اگست 2019 کو جب ہندوستان نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کردیا تھا۔اس وقت کے حالات کی سنگینی کے پیش نظرکشمیرکے سیاسی قائدین کو قید و نظر بندبھی کیاگیا۔ ان اقدامات کی دلیل دیتے ہوئے کہا یہ گیا تھا کہ اس سے و ادی میں امن قائم ہوجائے گا اور شدت پسندی اور علیحدگی پسندی کی راہ روک دی جائے گی۔ لیکن امید کے برخلاف یہ آرزو پوری نہیں ہوئی اور وادی میں آئے دن تشدد اور انتہا پسندی کے واقعات ہو تے رہے۔ان 2برسوںمیںشدت پسندی کے درجنوں واقعات سامنے آئے جس کی وجہ سے مرکز کے نامزد گورنر کی جانب سے سیاسی مذاکرات، مفاہمت اور بات چیت کے عمل کے بعد اب ریاست میں منتخب حکومت کی ضرورت کا احساس ہونے لگا تھا۔آج کااجلاس اسی ضرورت کی تکمیل کی جانب حکومت کا پہلا قدم مانا جا رہا ہے۔حکومت کی جانب سے ہر چند کہ اس اجلا س کا کوئی مخصوص ایجنڈانہیں رکھاگیا ہے لیکن غالب گمان یہی ہے کہ اس اجلاس میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات، اسمبلی حلقوں کی حد بندی سمیت درجنوں نزاعی معاملات زیرغور آئیں گے۔
جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد وزیراعظم مودی کی زیرصدارت یہ پہلا اجلاس ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب حد بندی کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے موجودہ اسمبلی حلقوں کی تنظیم نو اور7 نئی نشستوں کے قیام پر جموں و کشمیر کے تمام ڈپٹی کمشنرز سے تبادلہ خیال کیاتھا۔اس لیے بھی ریاستی اسمبلی کیلئے انتخاب کا امکان قوی ہوجاتا ہے۔
اجلاس سے قبل کشمیری قائدین کے بیانات بھی اس امر کے غماز ہیں کہ وہ ریاست میں سیاسی عمل کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد انتخابات ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی حکومت کی دعوت کو رد نہیں کیا ہے اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں کے14قائدین اس اجلاس میں شامل ہوئے۔اجلاس ہال میں داخل ہونے نیشنل کانفرنس کے سرپرست اور 5اگست2019کے بعد قائم ہونے والے گپکار اتحاد کے چیئرمین سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا یہ بیان بھی مستحسن ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان وغیرہ سے بات نہیں کرتے، انہیں اپنے وطن کے وزیراعظم سے بات کرنی ہے اس لیے وہ اس اجلاس میں آئے ہیں۔اسی طرح کانگریسی لیڈر سیف الدین سوز نے بھی اس امیدکا اظہارکیا ہے کہ اس اجلاس میں حکومت کشمیریوںکی بات سنے گی۔ تاہم کچھ عرصہ قبل تک بھارتیہ جنتاپارٹی کی اتحادی رہی پی ڈی پی کا موقف دیگر تمام قائدین سے ہٹ کر ہے۔ 434دنوں تک کی نظر بندی کاکرب جھیل رہیںپی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اجلاس میں تو شامل ہوئیں مگرا نہوں نے پاکستان سے بھی مذاکرات کی بات کہہ کر ایک نیا شوشہ چھوڑدیالیکن اچھا یہ رہا کہ محبوبہ کی اس رائے کو بیشتر کشمیری قائدین نے مسترد کردیا۔ مجموعی طور پر حکومت کی جانب سے بلائے گئے اس اجلاس میںشامل ہونے والے کشمیری قائدین میں نیک نیتی نظر آرہی ہے اور وہ خلوص دل سے کشمیرکو ملک کی مین اسٹریم سے جوڑے رکھنے کے خواہش مند بھی ہیں۔اور یہ امید بندھی ہے کہ اس اجلاس کے نتیجہ میں نہ صرف کشمیر میں امن برقراررہے گا بلکہ عام کشمیریوں کو بھی اس سیاسی عمل کے طفیل پرسکون، پرامن، مستحکم اور خوش حال کشمیر نصیب ہوگا۔ تاہم کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی اجلاس میں تمام نزاعی مسائل حل ہوجائیں لیکن یہ اچھا آغاز ضرور ہے۔ وزیراعظم کی اس رائے پر سبھی نے اتفاق کیا ہے کہ پنچایت سے لے کر اسمبلی تک کے انتخابات ہوں اور کشمیری نوجوان ملک و قوم کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS