خواجہ عبدالمنتقم
آئینی نقطۂ نظر سے کسی بھی سیکولر ملک میں سیاست میں مذہب کا دخل ہو ہی نہیں سکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے مگر ہوتا ہے اور اس سے سیکولرازم کی روح،کوئی مانے یا نہ مانے، یقینی طور پر مجروح ہوتی ہے اور خاص طور سے تب جب سیاسی اغراض کے لیے یا کسی کو نیچا دکھانے یا کسی کی تذلیل کے لیے نفرت آمیز تقاریر کی جاتی ہیں یا غیر شائستہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے!عوام کی تو بات ہی کیا،اس وقت تو عدلیہ بھی اس تماشے کی چشم دید گواہ ہے اور اسے اس کی چبھن دو وجوہات کے سبب محسوس ہونے لگی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح کے عناصر کے خلاف اس کے احکام پر عمل نہ ہونا اس کے وقار میں افاقہ کا عندیہ ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کے اہلکاروں کے خلاف ایک ہتک عزت کے معاملہ میں واضح الفاظ میں اپنی اس ضمنی رائے کا اظہارکیا ہے کہ سیاست داں سیاسی اغراض کے لیے مذہب کا استعمال کر رہے ہیں اور نفرت انگیز تقریروں کا سلسلہ جاری ہے۔ہندوستان میں سیاست میں مذہب کا بالواسطہ استعمال ہوتا رہا ہے مگر اب ایسا بلاجھجک کیا جانے لگا ہے۔
ہندوستانی پس منظر میںسیکولرازم کی بنیاد دو اصولوں پر ہے، ایک تو یہ کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے یا مختلف عقائد میں یقین رکھنے والے افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ان سب کے ساتھ برابر کا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔ دریں صورت سیاسی اغراض کے لیے مذہب کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ آئین (42ویں ترمیم) ایکٹ،1976، کے اغراض و مقاصدکے بیان (SOR (میں، جس کی رو سے لفظ سیکولرازم آئین کی تمہید میں شامل کیا گیا تھا، صاف طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ چونکہ کچھ عوامل اور مفاد پرست لوگ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر عام فلاحی اقدامات کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور یہ کہ آئین کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بتدریج آگے بڑھتا رہے اور اگرآئین کے اس تدریجی سفر میں رکاوٹ آتی ہے تو یہ خدشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کہیں آئین کمزور نہ پڑ جائے۔
ویسے بھی دنیا کے بیشتر ممالک، خاص طور پر ان ممالک میں بھی جو اپنے ملک کا آئین سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ابتدائیہ میں God یاLord جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیںجو اس بات کا ثبوت ہیں کہ واضعین آئین کے دماغ میں یقینی طور پر خوف خدا یا مذہب کی اہمیت رہی ہوگی اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں لیکن جب یہ جذبہ جنون کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور جب کچھ لوگ عام صورت حال میں اور سیاسی پروپیگنڈے کے دوران غیرشائستہ زبان استعمال کرنے لگیں، نفرت آمیز تقاریر کرنے لگیں، بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، ان کی املاک تباہ کردی جائیں، انہیں جسمانی مضرت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مضرت بھی پہنچائی جائے اوراس طرح کی حرکتوں پر قدغن لگانے کے لیے سپریم کورٹ کے احکام و ہدایات پر عمل نہ کیا جائے تو اسے تشویش ناک صورت حال نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ مگر یاد رہے یہ ذمہ داری صرف حکومت کی ہی نہیں عوام کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ دریں صورت حکومت کو بھی سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ جس طرح بہت سی فلاحی اسکیموں کے لیے بڑے بڑے اشتہار دیے جاتے ہیں، اسی طرح عوام کو یہ باور کرانے کے لیے کہ اس طرح کی حرکات و سکنات کی مہذب معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں، بڑے پیمانے پر اشتہار دیے جائیں۔اگر کوئی بات بار بار بتائی جائے اور بار بار اس کی تشہیر و تبلیغ کی جائے تو اس کا مرد ناداں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس اشتعال انگیزی،خواہ غیر شائستہ زبان کی شکل میں ہو یا غیر مہذب حرکات و سکنات کی شکل میں، تو ظاہر بات ہے اس سے بیماری کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا اور ایک دن وہ ایک وبا کی شکل اختیار کرلے گی اور کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ ملک کے عوام کو کسی بھی طرح کی وبا کا سامنا کرنا پڑے۔ اگرچہ ہمارے تعزیری قوانین میں نفرت آمیز تقاریر اور نفرت آمیز پروپیگنڈہ کرنے والوں کو سزا دینے سے متعلق توضیعات موجود ہیں لیکن اگرانسداد فرقہ وارانہ و نشان زد تشدد(انصاف تک رسائی و تلافی نقصان) بل،2011کو قانون کی شکل دے دی گئی ہوتی تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی چونکہ اس مجوزہ قانون میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ نفرت آمیز پروپیگنڈے کے مرتکب کو3سال کی سزا یا جرمانہ یا دونو ں کا التزام تھا۔ اس کے علاوہ اس قانون سے فسادات پر قابو پانے میں مدد ملتی چونکہ بیشتر فسادات نفرت آمیز تقاریر، پروپیگنڈے اور بدزبانی و اشتعال انگیزی کا ہی شاخسانہ ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اس نقصان کو صرف ہندو یا مسلمان کا نقصان سمجھتے ہیں جبکہ یہ نقصان پورے ملک اور قوم کا نقصان ہے۔ جہاں پر بھی فسادات ہوتے ہیں یا پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں تو وہاں پر تمام معاشی سرگرمیاں رک جاتی ہیں اور کبھی لاکھوں کبھی کروڑوں تو کبھی اربوں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ یہ نقصان کسی مخصوص فرقے کا نہیں، یہ تو پورے ملک کا نقصان ہے اور پوری معیشت پر ضرب کاری۔
دراصل آزادی کے 75 سال کے بعد اس طرح کے موضوع پر بحث ہونی ہی نہیں چاہیے۔ ضرورت تو اس بات پر غور کرنے کی ہے کہ سیکولرازم کے اس تصور کو مکمل طور پر کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جسے ہم نے آئین کی دفعہ51الف میں ’ملی جلی ثقافت‘ کا نام دیا ہے اور جو ہزارہا سال گزر جانے کے باوجود تاہنوز بقید حیات ہے، اسے کس طرح زندہ رکھا جائے۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت اور عوام دونوں کو ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ ہو،سب کے دل صاف ہوں، نیک نیتی اور ایمانداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، بغیر کسی معقول وجہ کے کسی کے ساتھ ترجیحی یا امتیازی سلوک نہ کیا جائے، زبان یا قلم سے کسی کی دل آزاری نہ کی جائے، نہ لنچنگ ہو نہ سرتن سے جدا کرنے کی بات ہو،تہواروں کو اس طرح منایا جائے کہ اس سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔کسی بھی مذہبی مقام پر کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں اوررد عمل کے طور پر بھی تشدد کی راہ اختیار نہ کی جائے۔
آئیے ہم جانشینان باپو اورفلسفۂ ’وسو دھیو کٹمبکم‘ کے حامی آزادی کے 75سال بعد ہی سہی پھر ایک بار عہد کریں کہ ہم اپنے ملک میں کسی کے خلاف غیر شائستہ زبان کا استعمال نہیں کریں گے،اپنے سیاسی اغراض کے لیے کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح یا بر انگیختہ کر کے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور کسی کو احساس محرومی نہ ہونے دیں گے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]