عبیداللّٰہ ناصر
یوںتو پانچ ریاستوں اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں اسمبلی انتخابات کا عمل جاری ہے، لیکن اترپردیش کے کثیر رخی مقابلہ پر پورے ملک بلکہ دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ملک جس سماجی انتشار اور بے چینی کے دور سے گزر رہا ہے مستقبل میں وہ کیا رخ اختیار کرے گا اورمستقبل کے ہندوستان کے کیا خدوخال ہوں گے، اس کا بہت کچھ انحصار اترپردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج پر ہے۔حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اتر پردیش میں ایک مشکل الیکشن لڑ رہی ہے، سابقہ اسمبلی الیکشن میں اسے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے بے میل اور بے موقع اتحاد کے ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ الیکشن کو شمشان قبرستان پر محدود کر دینے کا فائدہ ملا تھا۔ اس بار اس کے سامنے نہ صرف حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے بلکہ اندرونی بغاوت خاص کر سوامی پرساد موریہ اور دارا سنگھ چوہان، اوم پرکاش راجبھر جیسے سینئر اور اپنی اپنی برادریوں کے قدآور نیتاؤں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔اکھلیش یادو نے بڑی دور اندیشی سے پسماندہ برادریوں پر مشتمل ایک مضبوط محاذ بنا لیا ہے، حالانکہ بی جے پی نے بھی انوپریہ پٹیل جیسی پسماندہ طبقوں کی اہم لیڈروں کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے اور اس طرح مقابلہ پسماندہ بنام پسماندہ طبقہ ہوگیا ہے لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، بی جے پی نے اپنے پسماندہ محاذ میں ہندوتو کا رنگ بھی شامل کر رکھا ہے جبکہ اکھلیش یادو کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے، اس طرح اب یہ لڑائی سماجی انصاف اور سیکولرزم بنام ہندوتو ہو گئی ہے۔
کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین بھی پورے دم خم کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں لیکن ان سب میں سیاسی پنڈتوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی سب سے زیادہ نظریں مجلس پر لگی ہوئی ہیں جہاں ایک طرف مجلس اور ا ویسی صاحب کے پرستاروں کا ہجوم ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیاشیر آیا‘ کے نعرے لگا رہا ہے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کا ہی ایک بڑا طبقہ انہیں مسلم ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے اور اس طرح انہیں بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان دونوں کے درمیان لفظی جنگ کتنی شدید ہے، یہ سوشل میڈیا پر سرگرم سبھی لوگ دیکھتے رہتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ شدہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو کسی بھی جگہ سے الیکشن لڑنے کی آزادی ہے اور یہ آزادی مجلس کو بھی حاصل ہے، اس لیے مجلس کے اترپردیش سے الیکشن لڑنے والوں کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی یہ بھی سنجیدگی سے غور کرنے والی بات ہے کہ ہزاروں میل دور رہنے والے اویسی صاحب مسلمانوں خاص کر مسلم نوجوانوں کے ایک بڑے طبقہ میں مقبول کیوں اور کیسے ہوگئے اور اس کا جواب نریندر مودی کی شاندار کامیابی، ہندوتو کے ابھار اور اس ابھار کے خوف سے سیکولر پارٹیوں کی مسلم مسائل کی طرف سے چشم پوشی اور اس چشم پوشی و خاموشی کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں ان پارٹیوں کی طرف سے پیدا ہو رہی مایوسی میں پوشیدہ ہے۔ اس ماحول میں اویسی صاحب نے پارلیمنٹ کے اندر اور ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثوں میں اپنے زور خطابت معلومات اور مدلل باتوں سے مسلمانوں کے مقدمہ کو پوری طاقت سے رکھا جبکہ سیکولر پارٹیاں اگر، مگر اور مصلحت کشی سے کام لیتی رہیں اور یہی بات مسلمانوں کو اپیل کر گئی کہ مایوسی کے اس ماحول میں جب پورا سسٹم ان کے خلاف ہو چکا ہے، انتظامیہ ہی نہیں میڈیا، عدلیہ اور دیگر آئینی ادارے بھی اپنا فرض منصبی اور آئینی ذمہ داری بھول چکے ہیں، سیکولرزم اذ کار رفتہ لفظ بن چکا ہے، آئین پر اکثریتی طبقہ کی آستھا کو ترجیح دی جا رہی ہے، ایسے میں کوئی تو ان کی آواز اٹھا رہا ہے۔یعنی آزاد ہندوستان میں تقریباً ستر برسوں تک حیدرآباد کے پاس پڑوس کے اضلاع تک محدود رہنے والی پارٹی کے اچانک کل ہند سطح پر پھیل جانے میں اہم کردار ان سیکولر پارٹیوں کی خاموشی اور مسلم مسائل کی طرف سے چشم پوشی نے ادا کیا ہے۔بی جے پی، سنگھ پریوار، میڈیا اور سرکار نے پوری طاقت کانگریس کو ہندو مخالف، مسلم پرست ثابت کرنے میں صرف کر دی۔ ادھر کانگریس میں بیٹھے نرم ہندوتو کے علم برداروں نے کانگریس قیادت کو ورغلایا اور کافی دنوں تک کانگریس کنفیوژ رہی لیکن کچھ دنوں بعد راہل گاندھی نے ہمت دکھائی اور مسلمانوں کو لے کر نہ صرف بے باکی سے سوال اٹھائے بلکہ کانگریس کے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو بھی ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔دیگر سیکولر پارٹیوں نے تو ابھی تک وہ ہمت بھی نہیں دکھائی ہے۔
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اویسی صاحب کی باتیں درست ہیں۔ مسلمانوں کی شکایتیں بھی حق بجانب ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کا رویہ بھی ناپسند یدہ ہی نہیں قابل مذمت رہا ہے پھر بھی مصلحت، دور اندیشی، معاملہ فہمی اور مستقبل کی بہتر حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ سیاست کو مذ ہب کی بنیاد پر گروپ بندی یعنی پولرائزیشن سے ہر قیمت پر بچایا جائے، اگر مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر متحد ہونے کی بات کی جائے گی تو آر ایس ایس کی زہر کی کھیتی کو ازخود کھاد پانی ملتا رہے گا، بیس فیصدی کا اتحاد اسّی فیصدی کے اتحاد کے سامنے کہاں کھڑا ہو پائے گا۔مسلمانوں کی اپنی قیادت اور حصہ داری کی بات کی جاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ایسی کوششیں کئی بار ہو چکی ہیں لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئیں اور نہ آئندہ ان کی کامیابی کی امید ہے۔ اسی اترپردیش میں ساٹھ کی دہائی مرحوم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے سب سے پہلے یہ کوشش کی تھی۔ان کی مسلم مجلس آج کہاں ہے، کسی کو پتہ بھی نہیں لیکن ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے ساتھ جس سنیکت ودھایک دل کا وہ حصہ بنے تھے، اس کا منتقی انجام آج آر ایس ایس کے اس مقام تک پہنچ جانے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔خود لوہیا جی کی سوشلسٹ پارٹی کہیں گم ہو چکی ہے۔ ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی کو لوہیا جی کی سوشلسٹ پارٹی سمجھ لینا حقیقت سے چشم پوشی ہے۔ اسی طرح چرن سنگھ کی لوک دل جو اس زمانہ میں بھارتیہ کرانتی دل ہوا کرتی تھی، آج مغربی اترپردیش کے چند اضلاع تک محدود ہے جبکہ آر ایس ایس کی سیاسی شاخ بی جے پی آج دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن چکی ہے اور ساٹھ کی دہائی میں جس پارٹی اور جس پارٹی کے خیالات کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، لوگ جسے چمٹی سے بھی چھونا نہیں پسند کرتے تھے، وہ آج سکہ رائج الوقت بن چکا ہے۔کیا لوہیا جی کے غیر کانگریس واد کے چکر میں آر ایس ایس کو اس مقام تک پہنچانے کے گناہ سے وہ تمام لیڈران بچ سکتے ہیں جو تب سنیکت ودھایک دل کا حصہ بنے تھے۔ٹھیک ہے آپ نے کانگریس کی جڑوں میں مٹھا ڈال کے اسے کمزور کر دیا لیکن حتمی فائدہ کس کو پہنچایا؟
نوے کی دہائی میں جب منڈل کمنڈل کی سیاست کا زور ہوا تو پروفیسرنہال الدین کی قیا دت میں آل انڈیا مسلم فورم کی تشکیل ہوئی، اس نے بھی مسلم مسائل خاص کر منڈل کمیشن کی سفارشات میں مسلم پسماندہ برادریوں کا کوٹہ الگ کرنے کی بات کہی کیونکہ اس ریزرویشن کا فائدہ ہندوؤں کی طاقتور پسماندہ ذاتیں خاص کر یادو، کرمی لودھ وغیرہ کو مل رہا تھا مگر سیاسی پارٹی کے طور پر وہ تجربہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا، یہاں تک کہ ملائم سنگھ اور کانشی رام دو تین سیٹ بھی فورم کو دینے کو تیار نہیں ہوئے تھے اور صرف یہ پیش کش کی تھی کہ فورم کے چار پانچ امیدواروں کو وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے نشان پر الیکشن لڑانے کو تیار ہے۔ فورم اس پر تیار نہیں ہوا اور انجام کار تاریخ کے صفحات میں گم ہو گیا ۔
اسی طرح مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل اور ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی نے مسلم سیاسی پارٹی بننے کی کوشش کی لیکن سب کا انجام مسلم مجلس اور مسلم فورم جیسا ہی ہوا۔ حیدرآباد اور کیرالہ کے کچھ اضلاع تک محدود مجلس اور مسلم لیگ کے علاوہ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کو محدود کامیابی جغرافیائی وجوہ اور مسلمانوں کی آبادی کے ارتکاز کی وجہ سے بھلے ہی مل رہی ہو، قومی سطح پر یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا ہے اور مسلم لیڈروں سے زیادہ مسلم عوام دوراندیش اور سیاسی طور سے بالغ تھے کہ انہوں نے مذہبی بنیاد پر گول بندی کی سیاست کو مسترد کر دیا تھا۔ بہار میں مجلس کو چند سیٹوں پر کامیابی ضرور مل گئی لیکن اس کی وجہ سے کتنی سیٹوں پر آر جے ڈی کانگریس اتحاد کو نقصان ہوا اور بی جے پی جے ڈی یو اتحاد کی حکومت بن گئی، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور مجلس کے جو پانچ ممبران اسمبلی پہنچے ہیں وہ سرکاری فیصلوں پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے حق میں کتنے فیصلے کرواتے ہیں، اس پر کبھی کسی نے غور کیا؟ کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی کا سینٹر قائم کرانے میں کتنی کامیابی ملی؟جہاں تک مسلمانوں کی حصہ داری کی بات ہے تو آزادی کے بعد سے اب تک ایک وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیا جائے تو کون سی ایسی سیاسی اور انتظامی پوسٹ ہے جس پر مسلم نہ فائز ہوئے ہوں۔
بہار جیسے حالات اترپردیش میں بھی ہوسکتے ہیں، مجلس خود تو شاید اِکا دُکا سیٹیں جیت جائے گی لیکن ہر سیٹ پر پانچ سات ہزار ووٹ کاٹ کر کسی بھی بی جے پی مخالف پارٹی کو نقصان پہنچائے گی اور اس کے جو ایک دو ممبران اسمبلی پہنچیں گے بھی، وہ کسی سرکاری فیصلہ پر اثرانداز نہیں ہوسکیںگے، سرکار چاہے جس پارٹی کی بنے۔ہم نہ سابقہ مسلم لیڈروں کی نیک نیتی پر شک کرتے ہیں، نہ ہی اویسی صاحب کی لیکن ان کی دوراندیشی، معاملہ فہمی اور سیاسی سمجھ داری مشکوک تھی اور بد قسمتی سے اویسی صاحب بھی اسی صف میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
جنگ آزادی کے دوران کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان اسی بات کو لے کر اختلاف رہا تھا، مسلم لیگ خود کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی تھی جبکہ کانگریس کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانوں ہی نہیں سماج کے ہر طبقہ کی نمائندہ اور ان کے حقوق کی محافظ ہے۔ حیرت انگیز طور پر لیگ اور ہندو مہاسبھا میں اتحاد رہا، دونوں نے بنگال سندھ اور صوبہ سرحد میں مخلوط حکومتیں بنائیں مگر یو پی میں کانگریس اور لیگ کا اتحاد اس بات پر ٹوٹ گیا کہ لیگ جن تین مسلم وزرا کو کابینہ میں شامل کرنا چاہتی تھی، کانگریس نے اس میں سے دو کو لیگ کا اور ایک اپنا مسلم نمائندہ رکھا جس پر دونوں کا اتحاد ٹوٹ گیا۔مذہب کے نام پر اس سیاسی گول بندی کی ملک اور قوم نے کتنی بڑی قیمت ادا کی اس کا خمیازہ آج تک ہندوستانی مسلمان بھگت رہے ہیں، خدارا اس غلطی سے اجتناب کیا جائے ورنہ پھر ’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘ والی حالت ہوگی ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]