حلال کو حرام بنانے کی سیاسی سازش: پروفیسر اسلم جمشیدپوری

0

پروفیسر اسلم جمشیدپوری
آج کل قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو معاملات و واقعات چھائے ہوئے ہیں۔ان میں یوپی میں حلال مصنوعات کے خلاف چھاپہ ماری کی خبر سرخیوں میں ہے۔حلال سرٹیفکیٹ دینے والے اداروں اور ایجنسیز کے خلاف بڑی کاروائی کا قوی امکان ہے۔یہ صحیح ہے لیکن اس کے پیچھے ایک قوم کو ہراساں کرنااور حلال کو حرام بنانے کی سازش ہے۔جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس ملک پرضرورت پڑنے پر اپنی جان تک نثار کی ہے۔مسلمانوںکا اس ملک میںایک شاندار ماضی رہا ہے۔مسلمانوں کے ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اصل معاملے پر بعد میں بات ہوگی۔
ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے رہتے آئے ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ یہاں کے مسلمان ،تو یہاں کے رنگ میں ایسے رنگ چکے ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔یہی نہیں ہندوستانی مسلمان ،یہاں کی تہذیب کے دیوانے ہیں ۔شادی بیاہ کی رسمیں ہوں( بھات،چھوچک ،منڈھا ،جونار،دسیاری،سہرے کی رسم، گود بھرائی، جوتا چرائی ،جہیز کا لین دین،بھات نوتنے کی رسم ،مختلف گیتوں کا گانا )دیش کے باشند وں کے تہوار( ہولی ،دیوالی ، دسہرہ ، رکشا بندھن،بھیا دوج،رام لیلااورکرشن لیلاوغیرہ) موسموں کے رواج( ساون کے گیت، کانوڑیاترا، بیساکھی، لوڑی)پہناوا(ساڑی، دھوتی، گاندھی ٹوپی، جواہرجیکٹ، بندی،)وغیرہ میں شرکت ،تعاون اور استعمال مسلمانوں نے ہندوستان سے لیاہے۔ہر طرح سے اس ملک کے رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس میں کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔
1947میں جب ملک تقسیم ہوا ۔ہندوستان اور پاکستان دو ملک بنے ۔یہ مانا گیا کہ پاکستان مسلمانوں کا دیش ہے جبکہ ہندوستان کو ایک سیکولر ملک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔جن مسلمانوں نے اس ملک پر اعتمادکیا،اسے اپنا جانا،اپنی جان سے عزیز سمجھا،وہ یہیں رہے،وہ سرحد پار نہیں گئے۔انہوں نے یہیں جینا مرنا پسند کیا۔انہوں نے بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا۔یہ ان کی اس ملک سے لازوال محبت ہی تو تھی۔ایک ہزار اے ڈی سے آج تک مسلمانوں نے اس ملک کا نام روشن کیا ہے،کیا کیا گنوایا جائے،کس کس کا ذکر کیا جائے۔محمد غوری ،التمش،علائوالدین خلجی ،محمد بن تغلق ،بابر ،ہمایوں ،شیر شاہ سوری،اکبر ،جہانگیر ،شاہ جہاں ،اورنگ زیب ،بہادر شاہ ظفر،سراج الدولہ ،آصف الدولہ،حیدر خان،ٹیپو سلطان ،نواب واجد علی شاہ،سر سید احمد خان، شوکت علی،محمد علی،ابو الکلام آزاد،سرحدی گاندھی، ادبا و شعراء میںامیر خسرو ،قلی قطب شاہ ،وجہی ،ولی دکنی ،میر ،سودا، نظیر ،آتش،راسخ ذوق،غالب،مومن،اسماعیل میرٹھی ،داغ،ڈپٹی نذیر ،پنڈت رتن ناتھ سرشار،مرزا ہادی رسوا،پریم چند،آغا حشر کاشمیری ،اقبال ،سجاد حیدر یلدرم، پنڈت سدرشن،منٹو ،بیدی ،کرشن چندر،عصمت،رام لعل ،جوگندر پال ،جوش ،فراق،کیفی ،سردار جعفری ،میرا جی، عینی آپا،قاضی عبدالستار، الغرض کس کس کا نام لیا جائے۔بسم اللہ خان،کے آصف،دلیپ کمار ، نوشاد،شکیل بدایونی ،ساحر لدھیانوی،محمد رفیع ،حسرت جے پوری، جاوید،سلیم خان۔ان سب نے اردو زبان کی روح مشتر کہ تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے اس ملک کی خدمت کی۔اس فہرست میں بعض غیر مسلم بھی شامل ہیں ۔جنہوں نے اردو کے ذریعہ قومی یکجہتی کو فروغ دیا۔ مگر اس فہرست میں جو نام مسلمانوں کے ہیں،انہوں نے اپنے کارناموں سے اس ملک کا نام روشن کیا۔یہاں تک کہ بہت سے مسلمانوں نے پاکستان سے بھی لوہا لیا۔عبد الحمید جیسے نوجوانوں کو یہ ملک کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
ان سب کے باوجود مسلمانوں نے کبھی حرام و حلال ،حضور ﷺ کی شان میں گستاخی،دینِ اسلام پر کوئی حرف بھی آیا تو اسے برداشت نہیں کیا۔اس ملک میں فسادات کا ایک سلسلہ چلا۔اس ملک کی سب سے بڑی اکثریت پٹتی رہی ۔بابری مسجد انہدام کا واقعہ ہوا۔مظفر نگر فساد ہوئے اور یہ آگ دیہاتوں میں پھیل گئی ۔ہزاروں مسلمان در بدر ہو ئے۔اس ملک کے مسلمان ،ملک کی سیاست میں گھلتے فرقہ پرستی کے زہر کو دیکھتے اور محسوس کر تے رہے۔اتر پردیش کی حکومت نے حلال اشیا کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے والے ادارے اور ایجینسیز پر شکنجہ کسنا شروع کر دیا ۔ہو نہ ہو یہ کوئی ایک قوم کے خلاف سیاسی شازش ہو ۔2024 کے عوامی انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں،نئے نئے معاملات سامنے آ رہے ہیں۔ان کا مقصد ایک قوم کو پریشان کرنا اور ملک کی بڑی قوم کو یہ پیغام دینا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔حلال اشیاء کا بلواسطہ تعلق مسلمانوں سے ہے۔ مرکزی حکومت حلال چیزوں پر پابندی کے خلاف ہے۔خود مرکزی وزیر داخلہ محترم امت شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت حلال اشیا ء بنانے والی کمپنیوں پر کوئی پابندی نہیں لگا رہی ہے۔یہ مرکزی سرکار کا مختلف صوبوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش ِ نظر بیان بھی ہو سکتا ہے۔ادھر اتر پردیش حکومت کا سر بھی بدلا بدلا لگ رہا ہے۔یوپی کی ایڈیشنل چیف سکریٹری محترمہ انیتا سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتر پردیش میں حلال مصدقہ مصنوعات کی درآمد کے معاملے میںدوکانداروں اور تاجروں کے خلاف کوئی الگ سے کاروائی نہیں ہوگی۔ نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہوگا اور نہ ہی انہیں جیل بھیجا جائے گا۔
دراصل یہ ایک سیاسی سازش ہے ۔ملک کی مرکزی حکومت کو لگا کہیں ایسا نہ ہو،ایک پارٹی کو اس کا فائدہ پہنچ جائے اور ہمارا مقصد ہی فوت ہو جا ئے۔اب جب یہ بات اٹھ ہی گئی ہے ،تو اس سلسلے میں بین الاقوامی ،قومی اور صوبائی سطح پر ایسی مصنوعات کی بھر مار ہے،جن پر حلال ہونے کا نشان ہے۔دراصل اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو ایماندار مسلم ایجنسیوں کو ہی ملک میں برآمد اشیاء کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے کا مجاز بنانا چاہیے۔اس سے مسلمانوں کا ایمان باقی رہے گا اور کوئی بھی حرام کوحلال نہیں کر سکے گا۔
مگر مسلمانوں کو حکمراں طبقے کی نیت پر شک ہے۔ انتخابات کے بعد یہ معاملہ پھر اٹھے گا ۔ہو سکتا ہے تمام حلال چیزوں پر پابندی لگ جائے۔اگر ایسا ہوا تو یہ مسلمانوں کے لئے غور و فکر کا موقع ہوگا۔ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیںاور اپنے اپنے صوبے کی حکومتوں کے ساتھ مرکزی سرکار سے بھی بات کریں کہ اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان زندہ رہے ۔اس ملک کی قومی یکجہتی اور سا لمیت برقرار رہے اور ہم پوری دنیا کے اسلامی ممالک کے سامنے اپناسر بلند کر سکیں۔اس اقدام سے نہ صرف اقلیتوں کا تحفظ ہوگا بلکہ اس سے آئین پر یقین اور عملداری میں اضافہ بھی ہوگا ۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS