محمد فاروق اعظمی
گزشتہ کئی برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک مضبوط ہاتھوں کی حفاظت میں ہے۔ یہ مضبوط ہاتھ نہ صرف سرحد پر بلکہ اندرون ملک بھی عوام کی حفاظت کیلئے بے نظیر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں اس بیانیہ کا پردہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے چاک کردیا۔داخلی امور کی پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں پولیس تھانوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ 257 پولیس تھانے ایسے ہیں جہاں کوئی گاڑی ہی نہیں ہے، 638ایسے تھانے ہیں جو ٹیلی فون تک کی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ جب کہ 143پولیس تھانوں میں وائرلیس کی سہولت نہیں ہے۔ کانگریس لیڈر آنند شرما کی قیادت والی اس کمیٹی نے پہلی جنوری 2020تک کیے جانے والے سروے اور جائز ے کی بنیاد پر بنائی گئی اپنی رپورٹ میں پولیس کی منفی شبیہ پر بھی بہت کچھ کہا ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ عام لوگوں اور کمزور و محروم طبقات کے تئیںہندوستان کی پولیس کارویہ مجموعی طور پر غیرحساس اور منفی ہے۔ ملک کے کل 16833 تھانوں کی پولیس کا اخلاقی رویہ بھی ایسا نہیں ہے کہ اسے کسی دوسرے ملک کی پولیس کے مقابلے میں پیش کیاجاسکے۔کمیٹی نے سرحدی اضلاع کے حساس اورا نتہائی حساس علاقوں میں قائم پولیس تھانوں کی اس صورتحال کو ملک کی سیکورٹی اور سلامتی کیلئے انتہائی تشویش ناک بتایاہے۔قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں جن ریاستوں کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، وہاں بقول حکومت ’ ڈبل انجن‘ کی سرکاریں ہیں۔جموں و کشمیر سے آسام تک کی یہی صوتحال ہے۔ٹیلی فون سے محروم پولیس تھانوں میں اترپردیش سب سے اوپر ہے۔ شمالی مشرقی ہندوستان کی حساس ریاستوں میں بھی حالت انتہائی افسوس ناک ہے۔آسام کے141پولیس تھانے ، اروناچل پردیش کے 54 ، منی پور میں64، میگھالیہ میں 62اور ناگالینڈ کے 36 پولیس تھانے ایسے ہیں جن کی رسائی ٹیلی فون تک نہیں ہے۔کئی ایسی حسا س ریاستیں اور بھی ہیں جہاں کے پولیس اسٹیشن وائرلیس اور ٹیلی فون سے محروم ہیں باوجود اس کے ان میں سے کئی ریاستوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے پولیس نظم و نسق کے حوالے سے سال2018-19میں حسن کارکردگی کے اعزاز سے بھی نوازاگیا ہے۔
یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں ہے جب حکومت ڈیجیٹل انڈیا اور اطلاعاتی انقلاب کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے۔ 2015 میںشروع کی گئی ڈیجیٹل انڈیا مہم کے وقت حکومت نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ اس مہم سے ہندوستان کے ہر شہری کی زندگی میں انقلاب آفریں تبدیلی آئے گی لیکن 7 برسوں بعد یہ پتہ چل رہاہے کہ ملک کے سیکڑوں تھانے ٹیلی فون جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ راجیہ سبھا میں پیش کی گئی رپورٹ میں جوخوفناک تصویر سامنے آئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا سارا زور کام کرنے کے بجائے دعوے اورا علانات پر صرف ہوتاہے۔
ڈیجیٹل انڈیا کی ایسی شرمناک تصویر 21ویں صدی میں کیسے سامنے آئی؟ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں گھوم رہا ہے۔ قائمہ کمیٹی کی رپورٹ سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی یا این ڈی اے کی حکومت والی ’ڈبل انجن‘ ریاستوں کے کئی تھانوں میں انتہائی دگرگوں صورتحال ہے۔ فہرست میں سب سے اوپر مرکز کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر اور بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام ہیں۔ بی جے پی کے پوسٹر بوائے کہے جانے والے یوگی آدتیہ ناتھ کی ریاست اتر پردیش ٹیلی فون سے محروم تھانوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتر پردیش میں 75 تھانے آج بھی ٹیلی فون سے محروم ہیں اور وہاں کی حکومت جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ’زیروٹالرینس‘کی پالیسی پر بھی رو بہ عمل ہے۔
معاشرتی زندگی میں تھانے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔یہ پولیس تھانے ہی ہیں جو قانون نافذ کرنے میں انتظامیہ کی مدد کرتے ہیں۔ جرائم سے پاک معاشرہ کی تشکیل اور امن و امان کا قیام ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی متعلقہ تھانہ کے علاقے میں کسی بھی حادثے کی صورت میں فوری وہاں پہنچنا تھانے کے کام کی ترجیحات میں شامل ہے۔ تھانے کا کام ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنانابھی ہے۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تھانے کا بیرونی دنیا کے ساتھ ایک مضبوط اور جدید مواصلاتی نظام قائم ہو۔ لیکن حیران کن بات ہے کہ سیکڑوں تھانے ٹیلی فون، ٹرانسپورٹ گاڑیاں اور مواصلات کیلئے وائرلیس جیسے بنیادی اورا ہم ترین ذرائع سے محروم ہیں۔ پولیس تھانوں کی خستہ حالی یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ملک میں کئی تھانے ایسے بھی ہیں جہاں پینے کے پانی کا کوئی انتظام اور باتھ روم بھی نہیں ہے۔پولیس اہلکاروں کے کام کرنے کیلئے میز کرسی تک بھی نہیں ہے۔
مضبوط ہاتھ کا دعویٰ کرنے والی مرکز کی نریندر مودی حکومت نے عوام کو جس ڈیجیٹل انڈیا کا خواب دکھایا تھا 7برسوں بعد اس کی اتنی بھیانک تعبیر نکلے گی، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔یہ درست ہے کہ پولیس تھانوں کے بنیادی اور مناسب انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی ذمہ داری متعلقہ ریاست پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ پولیس کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیرکا صرفہ اٹھانا ریاست کیلئے اکیلے ممکن نہیں ہے۔ پولیس اصلاحات اور تحقیقات کا ادارہ مرکزی حکومت کے پاس ہے اوراس کیلئے خطیر رقم الاٹ کی جاتی ہے۔ ریاستوں میں پولیس فورس کی جدید کاری کیلئے ہر سال بجٹ میں اچھی خاصی رقم مختص کی جاتی ہے۔ لیکن یہ رقم ریاستوں تک پہنچتی بھی ہے یا نہیں اس پر مرکز کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں پولیس فورس کی جدید کاری کے سلسلے میں مختلف کمیٹیوں نے کئی الگ الگ طرح کے مشورے بھی دیے ہیں، ان سب مشوروں میں چند باتیں مشترک ہیں جن میں پولیس کیلئے جدید ہتھیاروں کی خریداری، پولیس فورسز کی نقل و حرکت کیلئے تیز رفتار ٹرانسپورٹ وسائل، لاجسٹک سپور ٹ، پولیس وائرلیس سسٹم کو اپ گریڈ کرنااور خاص طور سے ملک کی پولیس فورس کیلئے قومی سیٹلائٹ نیٹ ورک کا قیام شامل ہے۔ لیکن بوجوہ ان مشوروں پر حکومت نے آج تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔یہی حال پولیس فورسز میں بحالی اور تقرریوں کا بھی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے پولیس فورس کا تناسب ہر ایک لاکھ کی آبادی پر222پولیس اہلکار مقرر کیا گیا ہے۔ سال 2016 میں حکومت کی جانب سے بھی پولیس فورس کا تناسب ایک لاکھ افراد پر181پولیس اہلکاروں کامنظور کیاگیا ہے لیکن اصل تعداد آج بھی ایک لاکھ شہریوں پر فقط137ہی ہے۔
ایک طرف مضبوط ہاتھ اور ڈیجیٹل انڈیاکی دھوم ہے تو دوسری جانب شہریوں کی حفاظت کے سلسلے میں پولیس تھانوں کی یہ شرمناک اور بھیانک تصویر ہے۔ اب یہ حکومت ہی کو بتاناچاہیے کہ یہ صورتحال کیوں ہے؟ ہندوستان میں دو ہندوستان کیوں بن رہے ہیں؟ ٹیلی فون، ٹرانسپورٹ اور وائرلیس جیسے بنیادی ہتھیاروں سے پولیس تھانے کیوں محروم ہیں؟ عوام کی حفاظت کیلئے اس سردمہری کا ذمہ دار کون ہے ؟ حکومت یا حزب اختلاف؟
[email protected]