انقلابی روح اور مدبرانہ مزاج کا شاعر-تاباں

0
انقلابی روح اور مدبرانہ مزاج کا شاعر-تاباں

محمد سلمان نگینوی

اردو کے ترقی پسند شعرا میں ممتاز شخصیت کے حامل غلام ربانی تاباں کی پیدائش قائم گنج کے ایک مہذب اور ادب نواز خانوادہ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں اورثانوی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور اعلیٰ تعلیم فرخ آباد اور آگرہ میں ہوئی۔ ایک حساس دل اور سوچنے والے نوجوان تاباں ذہنی طور پر جنگ آزادی سے وابستہ ہوگئے۔ خوب تقاریر کیں اور اخبارات میں مضامین لکھے،جس کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ ان کے اندر کا شاعر اور مجاہد اس دور میں پروان چڑھاجب وہ وکالت کررہے تھے۔ ان کے اندر کی بے چینی نے ان کا دل وکالت میں لگنے نہیں دیا۔ بسا اوقات فتح گڑھ میں، وکالت تو کی مگر طبیعت شعر وشاعری کی طرف ہی مائل رہی ۔جگر مرادآبادی کی صحبتوں نے ان کے ادبی ذوق اور شاعری کو پروان چڑھایا۔ اس دور میں تاباں صاحب کی دلچسپی داربزم سے ہوئی اور وہ جلد ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے اور اس زمانے کی شہرآفاق شخصیات سے ملاقات ہونے لگیں، جن میں سجاد ظہیر بطور خاص تھے۔ اس وابستگی سے ان کی سیاسی اور سماجی زندگی اور سرگرم ہوگئی اور جلدہی دہلی منتقل ہوگئے۔ وکالت کو بالائے طاق رکھ کر مکتبہ جامعہ میں ملازمت کرلی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلیمی اور ادبی ماحول نے ان کی شاعری کو جلا بخشی اور ترقی پسند تحریک کی تنظیم کو فروغ دیا اور کئی شہروں میں شاخیں قائم کیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پورا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ ایسے دور میں وہ اپنے آپ کو انقلابی نعروں اور سرگرمیوں سے کیسے دوررکھ سکتے تھے، خوب تقریریں کیں، مضامین لکھے اور دومرتبہ جیل بھی جانا پڑا۔ اس ہنگامہ خیز زندگی میں شعر وادب سے ناطہ نہیں توڑا، جگر مراد آبادی کی صحبتوں اور پھر ترقی پسندوں سے وابستگی نے ان کو غریب پرور اور مزدور پرور شاعر بنادیا۔ دہلی کے ماحول نے ان کے فن کوجلا بخشی اور وہ ایک کہنہ مشق شاعر کے طور پر ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میںان کی مقبولیت بڑھنے لگی اور سنجیدہ طبع طبقہ میں تاباں صاحب نے مقام بسا لیا۔
1931کی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کئی شعراء مصنفین و ناقدین آسمانِ ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ابھرے اورچمکے، مثلاً پریم چند، سجاد ظہیر،کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی،،سید احتشام حسین، آلِ احمد سرور،اختر حسین رائے پوری، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیضؔ، جوشؔ ملیح آ بادی، حجازؔ لکھنوی،جذبی،ؔ مخدوم محی الدین، فراقؔ گورکھپوری، سردار جعفری، کیفیؔ اعظمی، مجروحؔ سلطانپوری اور اخترالایمان وغیرہ وغیرہ۔ غلام ربانی تاباںؔ بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ تاباں کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ادبِ اردو میں ان کی اہمیت مسلم ہے اور ایک عالم ان کے نام وکلام کا گرویدہ و شیدا ہے۔
غلام ربانی تاباں کا شمار صفِ اول کے ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے، مگر وہ ایسی شخصیت نہیں ہے جو سیاسی ضروریات اور تقاضوں سے متاثر ہوکر ترقی پسندوں سے وابستہ ہوئے تھے وہ بنیادی اور فطری طور پر مزدوروں او رکسانوں کے ہمدرد او رہم نوائع، مزاج کی قلندری ان کی پوری شخصیت میں نمایاں تھی اور یہی مزاج ان کی ذاتی زندگی اور شخصیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وہ فطری رجحان ہے جو ان کے فن میں شدت کے ساتھ موجود ہے۔ دہلی میں قیام کی وجہ سے ان کی شخصیت میں یہاں کے سماجی روّیے صاف دکھائی دیتے ہیں، دہلی کے فسادات میں قیام امن کی کوششوں میں تاباں صاحب سرکردہ شخصیات کے شانہ بشانہ دکھائی دیتے ہیں، دہلی کی پرستور گلیاں اس ذی حِس انسان کی پرشکن پیشانی کی گورہ میں، ہر فساد میں مرحم لگانے والوں کے ساتھ ساتھ بلکہ آگے آگے قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ان کے اند رکا حساس شاعران کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ تاباں کو میدان کار زار اور میدان عمل میں لاتا ہے، یہی وہ مزاج ہے جو فسادات کو روکنے میں ناکامی پر حکومتوں کو آئینہ دکھاتا ہے او راعزاز واپس کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کرتا ہے،علی گڑھ اور مرادآباد فسادات میں سرکار کی ناکامی پر ناراض ہوکر انہوں نے پدم شری کا اعزاز واپس کرکے ایک باشعور او رحساس شہری کی ذمہ داری نبھائی۔غلام ربانی تاباں کے فن میں سیاسی رنگ نمایاں ہیں۔
اکیسویں صدی کا موجودہ منظر نامہ جبکہ پوری دنیا فی الوقت عجیب سیاسی صورتحال سے دوچار ہے، کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں حکمراں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپنے عوام پر مختلف طریقوں سے مظالم نہ ڈھا رہے ہوں۔ عوام کو مکمل طور پر محکوم بنانے کے لیے جو بھی حربے اختیار کیئے جا سکتے ہیں وہ بے دریغ استعمال نہ کر رہے ہوں۔ چاہے خود کو مہذب گرداننے والے ترقی یافتہ مغربی ممالک ہوں یا دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک، بیشتر ممالک میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی ایک ہوڑ لگی ہے اور اس ہوڑ میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو وہ ہیں عوام یا پھر ہر ملک کا محکوم طبقہ۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر حکومتیں وجود میں تو آ رہی ہیں، مگر جمہوریت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ یہی حال آج ہمارے ملک ہندوستان کا بھی ہے۔ یہاں حکمراں جماعت کس طرح اقتدار میں آئی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ تمام حربے جو ایک حکمراں جماعت خود کو اقتدار میں برقرار رکھنے کیلئے اپنا سکتی ہے اپنا رہی ہے۔
آپ مارکسزم سے بے حد متاثر رہے ہیں۔ کارلی مارکس کے علاوہ آپ نے بی۔ ای۔ ایسٹن ، اسٹالن اور فریڈرک اینگل وغیرہ سے بھی گہرا اثر قبول کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ غریبوں، مزدوروں،دلتوں، کسانوں اور مظلوموں کے سچے اور پکے ہمدرد تھے۔ بغاوت ، صداقت، قناعت اور محبت تاباںؔ کا دھرم اور ایمان دونوں ہیں۔ بقول رفعت سروش۔
بغاوت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
صداقت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
قناعت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
محبت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
تاباںؔ کی شاعری تمام تر غزلوں اور نظموں پر مبنی ہے۔ تاباںؔ نے غزل میں نیا رنگ وآہنگ پیدا کیا۔ آپ کے نزدیک شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں۔ آپ شاعری کو مقصدیت کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ تصوف اردو شاعری کا خاص موضوع رہا ہے۔ لیکن تاباںؔ نے تصوف اور فلسفے سے خاص شغف نہیں لیا۔
اردو شاعری نے فارسی شاعری سے بہت کچھ مستعارلیاہے مثلاً الفاظ و تراکیب، تلمیحات، استعارات و تشبیہات، بحور وقوافی وغیرہ۔ اسی طرح خمریات بھی عجمی شاعری کا اہم موضوع رہا ہے۔ چنانچہ ار دوشاعری نے بھی خمریات کو موضوعِ سخن بنایا۔ بعضوں نے صرف رسمی طور پر اسے استعمال کیا ہے اور بعض تو اس کے لطف و سرور سے بھی آشنا رہے ہیں۔ تاباںؔ نے بھی خمریات پر کثرت سے شعر کہے ہیں۔ خمریات کو آپ نے نت نئے انداز سے پیش کیا ہے۔
تاباںؔ نے میدان شعر گوئی کی طرح میدانِ نثر میں بھی کامیاب اضافے کیے۔ آپ کی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ’ہوا کے دوش پر‘ کے عنوان سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکاہے۔ اردو کے علاوہ آپ نے ہندی اور انگریزی میں بھی ادبی، سیاسی اور قومی موضوعات پر مضامین و مقالات سپرد قلم کیے ہیں۔ انگریزی مضامین کا مجموعہ”POTICS To POLITEC’S” کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔
تاباںؔ کو مختلف اوقات میں مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا گیا۔ جنہیں آپ نے بخوشی قبول کیا۔1973ء میں ’’سوویت لیڈ ہزو‘‘ ایوارڈ سے سرفراز ہوئے۔ علاوہ اس کے شعری و ادبی خدمات کے صلے میں صدر جمہوریہ ہند نے ’’پدم شری‘‘ جیسے بھاری بھرکم اعزاز سے نوازا، لیکن 1977-78 میں مرادآباد اور علی گڑھ کے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ اعزاز حکومت کو لوٹا کر ’’جنتا پارٹی‘‘ کے منھ پر زور دار طمانچہ مارا۔
تاباں صاحب کے چار شعری مجموعے منظر عام پرآئے ساز لرزاں، حدیث دل، ذوق سفر اور نوائے آوارہ، نوائے آوارہ پر 1971 میں ساہتیہ اکیڈمی نے انعام سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ دو منظومات مجموعے ’شکست زنداں‘ اور غم دوراں بھی شائع ہوئے ہیں۔ ان کے نثری میں بھی کافی کام ہے۔ ان کی انڈیائی تقریروں کا مجموعہ ’ہوا کے دوش‘ پر شائع ہوچکا ہے ان کے انگریزی مضامین کا مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔
تصنیف:۔
1۔سازِ لرزاں(1950)2۔حدیثِ دل(1960) 3۔ ذوقِ سفر(1970)4۔ہوا کے دوش پر(1974)5۔ نواے آوارہ(1976)
تالیف:1۔شکستِ زنداں2۔غمِ دوراں
غلام ربانی تاباں کی ایک نظم ’انتقام‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس نظم میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
“میں کس سے انتقام لوں
یہ سچ ہے بیکسوں کے خوں سے سرخ ہو گئی زمیں
مصیبتوں کی داستاں میں سن چکا ہوں ہم نشیں
میں سن چکا ہوں کس طرح بزرگ و ناتواں بھی
بلکتے شیرخوار بھی، فسردہ نوجوان بھی
اجل کے گھاٹ ایک ایک کرکے سب اتر گئے
گھروں کی شاہزادیاں، حریمِ ناز کی مکیں
(جو عفتیں گنوا چکیں، جو عصمتیں لٹا چکیں)
بھٹک رہی ہیں در بدر
برہنہ پا، برہنہ سر
میں سن چکا ہوں ہم نشیں یہ داستانِ دل خراش
مگر کسے میں دوشں دوں
میں کس سے انتقام لوں
تباہیوں کی گود میں پلے ہوئے کسان سے۔؟
کہ جنگِ انقلاب کے سپاہی، نوجوان سے۔؟
غریب و ناتوان سے۔؟
نہیں، نہیں !!
یہ سب مرے عزیز ہیں، یہ سب مجھے عزیز ہیں
میں کس سے انتقام لوں
بتا کسے میں دوشں دوں
مذکورہ نظم کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوراج کے حامی غلام ربانی تاباں نے یہ نظم ان حالات میں کہی ہوگی جب ملک میں آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔ اس دوران انہوں نے انگریزوں کے استحصال کی پالیسی کے خلاف عملی اور تحریری طور پر اپنا احتجاج درج کرایا ہوگا۔ یہ نظم جہاں اْس دور کا المیہ بیان کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے وہیں ایک طویل وقت گزر جانے کے بعد بھی نظم کی معنویت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے؛ کیونکہ آج کے تناظر میں بھی یہ نظم وہی منظر پیش کر رہی ہے جو برطانوی راج میں نظر آتا تھا۔
میانہ روی تاباں صاحب کا طرّہ امتیاز رہی ہے۔ قمر رئیس کا خیال ہے کہ:
تاباں نے بعض ترقی پسند کے اس تصور کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا کہ غزل کو فکری اور جذباتی ایذہ کاری سے پاک کرکے ایک موڈ کا پابند کیا جائے۔ ان کی غزلوں میں حزن پاس بھی ہے اور غم ونشاط بھی، انسانیت پر اعتماد بھی ہے برہمی او راحتجاج بھی ہے، حوالوں کے دھند لکے بھی، حقیقت کی روشنی بھی، تنہائی اور یادوں کا عذاب بھی اور انسانوں کی قربت کا حوصلہ خیز احساس بھی۔ الغرض ان کی غزلوں میں ہر طرح کے تلخ وشیریں تجربات اندیشے اورآرزو مندیاں، موج اور موج اٹھتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS