پاکستان پہلی قومی سلامتی پالیسی میں ہندوستان سے امن کا خواہاں
اسلام آباد ( ایجنسیاں) : پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو ملک کی پہلی قومی سیکورٹی پالیسی پیش کی، جسے شہریوں پر مبنی فریم ورک پر تیار کیاگیاہے اور فوجی طاقت پر مرکوز ایک رخی سیکورٹی پالیسی کے بجائے اس میں معاشی نظام کو بڑھاوا دینے اور دنیا میں ملک کی حالت کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیاہے۔ گزشتہ ماہ قومی سیکورٹی کمیٹی اور کابینہ سے منظور شدہ سیکورٹی پالیسی کے پبلک ایڈیشن کو وزیراعظم دفتر میں منعقدہ ایک تقریب میں جاری کرتے ہوئے عمران خان نے آج کہاکہ سابقہ سرکاریں پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں ناکام رہیں۔ حالانکہ 100 صفحات پر مشتمل اصل دستاویز خفیہ زمرے میں بنا رہے گا۔ عمران خان نے کہاکہ ’ہماری خارجہ پالیسی میں معاشی سفارت کاری کو آگے لے جانے پر زور ہوگا‘۔ انہوں نے کہاکہ خوشحالی اور ترقی کیلئے قانون کی حکمرانی ضروری ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے قانون کی موجودگی ضروری ہے۔ عمران خان نے 2022-2026 کیلئے پانچ سالہ قومی سیکورٹی پر سرکار کے نظریے کو پیش کیا۔ مانا جارہا ہے کہ پہلی بار پاکستان کی سیکورٹی یہاں کے شہریوں میں پنہاں ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ خان نے کہاکہ ’قومی سیکورٹی کے نظریے میں بغیر تفریق کے، بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی گارنٹی کے ساتھ قومی تال میل اور لوگوں کی خوشحالی ترجیح ہونی چاہئے… ہمارے شہریوں کی عظیم صلاحیت کو حاصل کرنے کیلئے نتائج دینے والی بہتر حکمرانی ضروری ہے‘۔ انہوں نے پالیسی پر کامیاب عمل آوری کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ مستقل بنیاد پر قومی سیکورٹی پالیسی ترقی کا جائزہ لے گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ یہ پالیسی شہریوں کو مرکز میں رکھ کر تیار کی گئی ہے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی جاری کردی گئی ہے جبکہ پالیسی میں دفاع، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق ہندوستان کے ساتھ امن کے خواہاں اور مسئلہ کشمیر کا حل تعلقات کا مرکزی نکتہ رہے گا۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ انٹلیجنس تبادلے، سرحدی علاقوں کی پیٹرولنگ سے باہمی تعلقات بہترہوں گے۔ امریکہ کے حوالے سے پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان سرمایہ کاری، انرجی، انسداد دہشت گردی میں تعاون کاخواہاں ہے، پاکستان امریکہ کے ساتھ سکیورٹی و انٹلیجنس کے شعبوں میں تعاون کا خواہاں رہے گا۔ قومی سلامتی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملکی دفاع کیلئے کم سے کم جوہری صلاحیت کو حد درجہ برقرار رکھا جائے گا،جبکہ تصفیہ طلب مسائل اور سرحدی مسائل بالخصوص ایل او سی پرتوجہ مرکوز کی جائے گی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب پر توجہ مرکوز ہوگی۔ پالیسی کے مطابق فرضی اطلاعات اور اثرانداز ہونے کیلئے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسلام آباد میں قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کی تقریب ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان، وفاقی کابینہ کے ارکان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔ تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، شرائط ماننی پڑتی ہیں، شرائط ماننے کی وجہ سے لوگوں پربوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہیں تو سکیورٹی متاثرہوتی ہے۔قومی سلامتی پالیسی سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ بڑی محنت سے متفقہ قومی دستاویزتیار کی گئیں، پہلے کبھی بحیثیت قوم ترقی کا تصور نہیں دیا گیا۔
قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں پر زیادہ توجہ دیں۔ اْدھر قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نیکہاکہ قومی سلامتی کیتمام پہلوؤں پرپالیسی ایک زبردست اقدام ہے، ملٹری سکیورٹی قومی سلامتی کا ایک پہلو ہے، یہ دستاویز قومی سلامتی کو یقینی بنانے میں مددگار ہوگی۔
شہریوں کی خوشحالی اور ترقی کیلئے فوجی طاقت کے بجائے مضبوط معیشت پر زور:عمران خان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS