ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ایک خوفناک اور بدترین صورت حال سے دوچار ہوگئی ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ممتا بنرجی کی حکومت اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کر سکتی ہے۔ ممتا کے دور حکومت میں ،میں جب بھی کولکاتہ گیا ہوں، وہاں کے کئی پرانے صنعت کاروں اور تاجروں سے بات کرتے ہوئے مجھے لگتا تھا کہ ممتا کے خوف سے اب وہ کوئی غلط کام نہیں کر پارہے ہوں گے لیکن ان کے صنعت و تجارت کے وزیر پارتھ چٹرجی کو پہلے تو ڈائریکٹوریٹ آف انویسٹی گیشن نے گرفتار کیا اور پھر ان کے ذاتی معاونین، دوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں سے جو کروڑوں روپے کی نقدی برآمد ہوئی، انہیں ٹی وی چینلز پر دیکھ کر حیران ہونا پڑتا ہے۔ ابھی تو ان کے کئی فلیٹس پر چھاپے پڑنا باقی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران چھاپوں میں جو بھی نقدی، سونا، زیورات وغیرہ ملے ہیں، ان کی قیمت 100 کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر ان کے بعض دیگر وزراء بھی ڈائریکٹوریٹ آف انویسٹی گیشن کے چنگل میں پھنس گئے تو یہ رقم کئی ارب تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ بنگال کے مارواڑی تاجروں کا خون چوسنے میں ممتا حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پارتھ چٹرجی صرف تین محکموں کے وزیر ہی نہیں ہیں۔ انہیں ممتا بنرجی کا نائب وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اس حیثیت میں ممتا کا تمام لین دین وہی کرتے رہے ہوں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ وہ پارٹی کے جنرل سکریٹری اور نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں بنگال کے لوگ پارٹی کی ناک سمجھتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی گرفتاری کے چھ دن بعد تک ان کے خلاف پارٹی نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹتا رہا۔ ترنمول کے لیڈر بی جے پی حکومت پر انتقام کا الزام لگاتے رہے۔ اب جب کہ پورے ملک میں ممتا حکومت کی بدنامی ہونے لگی ہے توکچھ ہوش آیا اور پارتھ چٹرجی کو کابینہ اور پارٹی کی رکنیت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ یہ برخاستگی نہیں، صرف معطلی ہے، کیوں کہ پارٹی کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ جانچ میں وہ کھرے اتریں گے، تب ان کو ان کے سارے عہدے دوبارہ مل جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف ترنمول کانگریس کی بدعنوانی کا ہی نہیں ہے۔ ملک کی کوئی بھی پارٹی اور کوئی بھی لیڈر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کرپشن سے پاک ہیں۔ کرپشن کے بغیر، یعنی اخلاقیات اور قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر کوئی بھی شخص ووٹوں کی سیاست کر ہی نہیں سکتا۔ روپیوں کا پہاڑ لگائے بغیر آپ الیکشن کیسے لڑیں گے؟ اپنے انتخابی حلقے کے پانچ لاکھ سے بیس لاکھ تک کے ووٹروں کو ہر امیدوار کیسے پٹائے گا؟ نوٹ سے ووٹ اور ووٹ سے نوٹ کمانا ہی اپنی سیاست کا بنیادی منتر ہے۔ اسی لیے ہمارے کئی وزرائے اعلیٰ تک جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ نوٹ اور ووٹ کی سیاست نظریہ اور کردار کی سیاست پر حاوی ہوگئی ہے۔ اگر ہم ہندوستانی جمہوریت کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں تو سیاست میں یا تو آچاریہ چانکیہ یا افلاطون کے ’فلسفی رہنما‘ جیسے لوگوں کو ہی سیاست میں آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ورنہ آپ جس لیڈر پر بھی چھاپہ ماریں گے، وہ آپ کو کیچڑ سے آلودہ ملے گا۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]