فلسطینی قیدیوں پر نسل کشی کے تحت مقدمے کا منصوبہ: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی گولہ و باردو کے درمیان باد بہاری کے ایک جھونکے کا احساس ہے،جسے غزہ کے عوام کے ساتھ ہی پوری دنیا محسوس کر رہی ہے، دونوں طرف کے قیدی اور ان کے اہل خانہ کی خوشی بھی دنیا نے دیکھی،فلسطینی عوام خصوصاً حماس کی عزیمت اور اسرائیل کی ہزیمت کو بھی دنیا نے احسن طریقے سے محسوس کیا ہے۔اس عزیمت اور ہزیمت کے احساس کی بنیاد وہ دو چہرے ہیں جنہیں دنیا نے دیکھا ہے اور ایک نیا بیانیہ قائم کیا جس میں فلسطینیوں کی انسانی اقدار اور اسرائیل کی بربریت کو اہمیت حاصل ہے۔اس جنگ نے پوری دنیا اور خصوصاً نوجوانوں کو بیدار کردیا ہے اور فلسطینی عوام کو ان کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے،مغربی ممالک سے فلسطین کے حق میں جو آوازیں اس جنگ کے درمیان بلند ہوئیں وہ مسلم ممالک کی جانب سے بھی نہیں اٹھی ہیں۔ان آوازوں کو اٹھانے میں سب سے نمایاں کردار سماجی روابط کی ویب سائٹس نے ادا کیا ہے حالانکہ مین اسٹریم کے میڈیا کے ساتھ ہی سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر بھی یہودیوں کی ہی اجارہ داری ہے مگر ان کی سنسرشپ اس بار کار آمد ثابت نہیں ہوئی۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین وجود اور بقا کی جنگ میں دنیا نے دیکھا کہ انسانیت کا چولا اوڑھنے والے افراد کس قدر شقی القلب ہیں،ان کی انسان دشمنی کس قدر بڑھی ہوئی ہے،جولوگ تعصب کی دہائی دیتے ہیں اور نازیوں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں وہ خود کس قدر تعصب زدہ ہیں۔ عمارتوں کے انہدام کے ساتھ ہی 15000سے زائد فلسطینیوں کا قتل بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کیا ہے جس پر اسرائیل شرمسار بھی نہیں ہے،اس نے شہریوں کو نشانہ بناکر بمباری کی،بچوں اور عورتوں کو قتل کیا،بزرگوں اور بیماروں تک کو نہیں چھوڑا،انسان سوز جرائم کے درمیان جنگ بندی ہوئی تو دنیا نے راحت کی سانس لی مگر اس دوران ایک اہم خبر بھی سامنے آئی ہے جس کی جانب ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی حالانکہ اس خبر کو اس جنگ بندی کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔
اسرائیل جیل کمشنر کیٹی پیری نے 17اکتوبر کو بتایا تھا کہ 7اکتوبر کے بعد غزہ سے تقریباً 118فلسطینی حراست میں لیے گئے جنہیں اسرائیلی جیلوں میں قید کیا گیاہے،اس کے بعد اب تک کی گئی گرفتاریوں کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں، غالب گمان یہ ہے کہ 500سے زائد فلسطینی اسرائیل کی گرفت میں ہیں، جن کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کر رہا ہے۔
اب خبر یہ ہے کہ ان فلسطینیوں پر اسرائیل میں مقدمہ چلانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے،کیونکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ان لوگوں نے اسرائیل کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس لیے ان کے خلاف مقدمہ بھی وہیں کی عدالتوں میں ہی چلایا جائے۔اطلاعات کے مطابق بیر شیبہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں یہ مقدمہ چلایا جائے گا۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے،جہاں ان فلسطینیوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا جائے۔یہ روایت رہی ہے کہ اسرائیل اب تک فلسطینیوں کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلاتا رہا ہے لیکن ہبرو یونیورسٹی آف یروشلم کے قانون کے پروفیسر بارک مدینہ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کو داغدار کر سکتا ہے، اس لیے یہ مقدمہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہی چلایا جا نا چاہیے۔
اسرائیل میں منصوبہ بنایا جارہا ہے کہ ان فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی 1950 ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قانون اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں وضع کیا گیا ہے۔جس میں کہا گہا ہے کہ کسی بھی قومی،نسلی یا مذہبی گروہ کے خلاف جان بوجھ کر مکمل یا جزوی نسل کشی کے مرتکب ہونے والے افراد کو سزائے موت دی جائے گی۔
در اصل یہ قانون ہولوکاسٹ کے پس منظر میں نازیوں کو سزا دینے کے لیے منظور کیا گیا تھا جس کا اطلاق ان فلسطینیوں پر نہیں ہوسکتا، اس کے باوجود کوشش کی جا رہی ہے کہ اسی قانون کے تحت ان پر مقدمے چلائے جائے تاکہ انہیں پھانسی کی سزا دی جائے۔حالانکہ خود اسرائیلی ماہرین قانون اس رائے سے متفق نہیں ہیں، خود ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت انہیں سزا دیا جانا غیرمناسب ہے۔پروفیسر بارک مدینہ کا کہنا ہے کہ کم درجے کے مجرمین کو اس قانون کے تحت سزا دینا بہت مشکل عمل ہے جبکہ ڈاکٹر گال لیورٹوف کے مطابق مسلح فوجیوں اور غیر مسلح افراد کو نسل کشی قانون کے تحت موت کی سزا دینا بہت مشکل ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان افردا کو ذاتی طور پر یہ معلوم تھا کہ وہ نسل کشی میں حصہ لے رہے ہیں اور وہ یہودیوں کو قتل کرنے میں شریک تھے۔انہوں نے ایک سربیائی فوجی کے مقدمے کا حوالہ بھی دیا جو 1995 میں بوسینیا کی جنگ کے درمیان سریبرینیکا کے قتل عام میں ملوث تھاجس میں 8000افراد مارے گئے تھے۔کیوٹکووچ نام کے اس سرب فوجی پر مقدمہ چلایا گیا مگر اس پر یہ ثابت نہیں کیا جا سکا تھا کہ وہ اس قتل عام میں شریک تھا جس کی وجہ سے سرب عدالت نے اسے بری کردیا تھا۔اس قانون کے تحت اب تک صرف دو افراد نازی ایڈولف ایچ مین اور یوکرینی گارڈ جان ڈیم جنک کو سزائے موت د ی گئی ہے،لیکن اسرائیل محروس ان سبھی فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
حالانکہ اسرائیلی ماہرین قانون یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ ان فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں دشمن کا تعاون، دہشت گردی،قتل میں شمولیت اور دہشت گرد تنظیم کی رکنیت کی دفعات کے تحت مقدمے چلائے جائیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردانہ کارروائی، دہشت گرد تنظیم کی رکنیت اور قتل میں شمولیت کی دفعات کے علاوہ نسل کشی قانون کے تحت ان پر مقدمے چلائے جانے کا امکان ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں جن صعوبتوں سے فلسطینیوں کو گزاراجاتا ہے، وہ جگ ظاہر ہے،فلسطینی مجاہدین نے اس جنگ میں جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کیا ہے، اسے بھی پوری دنیا نے دیکھا ہے،اس کے باوجود اسرائیل کا کہنا ہے کہ بعض جنگجوجو ان کی قید میں ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی خواتین کی آبرو ریزی بھی کی ہے، اس لیے ان قیدیوں کے خلاف عصمت دری قوانین کے تحت بھی مقدمے چلائے جائیں گے۔اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل میں 2016میں وضع کیا گیا قانون کہتا ہے کہ جنگ میں عصمت دری کی سزا عام حالات میں عصمت دری کے مقابلے دگنی ہے،اس لیے بھی اس قانون کا اطلاق ان فلسطینیوںپر اسرائیل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس معالے میں 25سال کی سزا دی جائے۔اسی طرح دشمن کی مدد کرنے پر عمر قید یا سزائے موت ہے جو عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کس کا فیصلہ کرے۔قتل کے لیے ملنے والی عمرقید کی سزا میں پیرول نہیں ہے،یعنی اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو بہرصورت ایسی سزا دینا چاہتا ہے جس میں یا تو انہیں موت ملے یا پھر وہ پوری زندگی اسرائیلی جیلوں میں گزاریں۔
اوتزما یہود پارٹی کے رہنما اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گوئرفلسطینیوں کو سزائے موت دینے کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ انہوں نے کھلے عام اس بات کا اعلان بھی کیا کہ ان سبھی قیدیوں پر نسل کشی کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور انہیں پھانسی کی سزا دی جائے گی جس کے لیے اس سے متعلق وہ کنیسٹ میں بل پیش کریں گے۔حالانکہ ابھی اس بات کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے خلاف مقدمے کا آغاز کب ہوگا۔
زیر حراست فلسطینیوں کو شک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے، ان کی حیثیت بھی اسرائیلی قیدیوں کی طرح ہی ہونی چاہیے،ان قیدیوں کو بھی اس جنگ بندی کا حصہ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا،دنیا کو ان قیدیوں کی جانب توجہ دینی چاہیے ورنہ اسرائیل ان قیدیوں کو نشانہ بنائے گا اور ان کو انسان سوز سزائیں دے گا۔عرب ممالک خصوصاً قطر کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی کوششوں سے ان فلسطینیوں کی زندگی جہنم بننے سے بچ سکتی ہے،ورنہ جنگ بندی کے خوشگوار جھونکے کے احساس سے یہ قیدی نہ صرف محروم رہ جائیں گے بلکہ پوری زندگی اسرائیلی جیلوں میں گزارنے پر یہ مجبور کردیے جائیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS