سردی، آلودگی اور تمباکو نوشی : عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

سردی کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ اس موسم کا مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں ایک طرف جہاں گرم کپڑوں کی مدد لی جاتی ہے، وہیں گرم کھانوں، خصوصاً چائے، کافی اور دیگر گرم مشروبات کے ساتھ تمباکو نوشی کے استعمال کا دائرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو زیادہ مرغن اور گرم کھانوں کی طرح چائے اور کافی بھی نقصان دہ ہیں، لیکن انہیں ترک کرنا یا ان سے کسی تکلیف کا ازالہ کرنا مشکل ترین سہی ناممکن نہیں۔ اس کے برعکس تمباکو نوشی ایک تو پہلے سے اذیت ناک طور پر نقصان دہ ہے اور جب اس کے نشے کے عادی اسی کے سہارے سردی کا مقابلہ شروع کر دیتے ہیں تو اور زیادہ بلکہ ہلاکت خیز خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
تمباکو نوشی کا چلن سرد ملکوں میں بہت زیادہ ہے لیکن وہاں کے لوگوں کے پھیپھڑے گرد آلود ماحولیاتی آلودگی کے سبب چونکہ پہلے سے متاثر نہیں ہوتے، اس لیے وہ سگریٹ کا دھواں زیادہ دنوں تک جھیل لیتے ہیں۔ ایشیائی اور دوسرے ایسے خطوں میں جہاں ماحول سانسوں کیلئے پہلے سے ہی خطرناک ہے، وہاں سگریٹ کا دھواں اپنے طور پر نقصان پہنچانے کے ساتھ ہی پہلے سے پہنچے کسی نقصان کو بڑھانے میں سرگرم معاون کا رول بھی ادا کرنے لگتا ہے۔ پھیپھڑوں، منھ، گلے اور مثانے کے کینسر، ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت ایسی تمام قسم کی اموات میں زائد از دس فیصد اموات کی وجہ تمباکو نوشی بتائی جاتی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے سگریٹ پیتے ہیں اور کسی طرح چھوڑ نہیں پاتے، وہ سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں تقریباً دس سال کی زندگی کھو دیتے ہیں۔
نکوٹین سگریٹ کا ایک فعال طور پر نشہ آور اور خطرناک جزو ہے جو جسم میں داخل ہونے کے بعد بڑی سرگرمی سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ای-سگریٹ میں بھی اس سے نجات نہیں۔ اس لیے جو لوگ سگریٹ سے ای-سگریٹ کی طرف منتقل ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے نجات حاصل کر لی، وہ سخت مغالطے میں ہیں۔ وہ بھی اتنے ہی خطرے میں ہیں جتنے نقصان میں عام سگریٹ نوش پہلے سے پڑے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکوٹین کے بخارات دونوں سگریٹوں میں فعال جزو ہیں۔ یہ خطرناک طور پر ایک نشہ آور شے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ کینسر کا راست سبب نہیں بنتا ہے۔ تو کیا راست تباہی سے بالواسطہ تباہی کی طرف مڑ جانا کوئی عقلمندی ہے۔ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔
اس طرح ثابت یہ ہوا کہ ای-سگریٹ بھی کسی طور خطرے سے خالی نہیں۔ بس کینسر کا خطرہ اس میں کوئی ایک فیصد یا اس بھی کچھ کم ہے۔ تو کیا کینسر سے کم دوسری بیماریوں کو دعوت دیتے رہنا کوئی اچھی بات ہے۔ قطعی نہیں۔ البتہ اس لحاظ سے یہ سمجھ لینا کہ ای-سگریٹ پینے والے دہائیوں محفوظ رہیں گے، تجزیہ کاروں کے نزدیک بے وقوفی ہے۔ سوشل میڈیا پر سگریٹ نوشی کے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو زائد از ایک تحقیقات سے گزرنے کے بعد سب سے پہلے جس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمباکو کا استعمال انسانی تہذیب کی تاریخ میں سب سے مہلک عمل ہے۔ تمباکو بر صغیر میں خام شکل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کھینی یا پان میں زردے کے طور پر۔ یہ دونوں صورتیں بھی اتنی ہی خطرناک ہیں جتنی نقصان دہ سگریٹ نوشی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تمباکو کا استعمال ہر سال تقریباً6ملین لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیتا ہے۔ اگر تمباکو کے استعمال پر شراب سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ڈرگ جیسی پابندی نہیں لگائی گئی تو یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
آئیے اس پر غور کرتے ہیں کہ معاشرے کو شراب اور ڈرگ کی طرح تمباکو سے پاک بنانے کی وکالت کے کیا کیا مضبوط جواز ہوسکتے ہیں۔ غور و فکر کرنے والوں نے پہلا جواز یہ پیش کیا ہے کہ اس سے موت اور کبھی کبھی نہایت تکلیف دہ موت واقع ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ تمباکو دیگر نقصان دہ مصنوعات میں ناقص ترین پیداوار ہے۔ تیسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سگریٹ سے ہونے والی بیماری کے علاج کے نتیجے میں خوش حال گھروں کی جہاں تجوری خالی ہوجاتی ہے وہیں غریبوں کے علاج کا سرکاری خزانے پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑتا ہے۔ تمباکو نوشی کے نتائج کے ازالے کی کوشش امیروں کو جہاں متوسط بنا دیتی ہے، وہیں غریبوں کو غریب تر۔ چوتھی حیرت انگیز بلکہ تکلیف دہ وجہ یہ تلاش کی گئی ہے کہ سگریٹ کا کلچر فروغ دینے والے در اصل معاشرے میں راست اور بالواسطہ طور پر کرپشن کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کی ایک سے زیادہ تحقیقی مثالوں میں ایک مثال یہ بھی ہے کہ برقی اور اشاعتی میڈیا میں اس کی تشہیر پر جتنی توجہ دی جاتی ہے، اتنی توجہ سگریٹ نوشی پر نکتہ چینی کرنے والے آرٹیکل کو نہیں ملتی۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی بحریہ کو تمباکو نوشی سے پاک بنانے کی کوششوں کو بھی ماضی میں ناکام بنایا جاچکا ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق1986میں امریکی بحریہ نے سال2000تک سگریٹ کے دھوئیں سے پاک بحریہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ انڈسٹری کی طرف سے تمباکو دوست کانگریسیوں پر اس ارادے کو ناکام بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ نتیجے میں باقاعدہ ایک قانونی راستہ نکال کر تمام جہازوں پر سگریٹ فروخت کرنے اور تمباکو نوشی کی اجازت دے دی گئی۔ اس عفریت سے بحریہ کو2011میں نجات ملی۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ دنیا کا پہلا ایسا ملک بن گیا تھا جہاں سگریٹ نوشی پر ’جنریشن بین‘ لگایاگیاتھا۔ حکومت بدلتے ہی اس قانون پر عمل درآمد سے پہلے ہی اسے واپس لے لیا گیا ہے۔ بظاہر اس پیش رفت کو تمباکو انڈسٹری کی ایک بڑی جیت قرار دیا جا رہا ہے لیکن بباطن یہ نئی نسل کے لیے ایک بڑی شکست ہے۔
اگر حالات اسی رخ پر آگے بڑھے تو سابقہ صدی کے خاتمے تک تمباکو نوشی سے اگر100ملین ہلاکتیں ہوئی تھیں تو جاری صدی میں یہ تعداد ایک بلین بھی ہوسکتی ہے کیونکہ آبادی میں اضافہ سگریٹ پینے والوں کی تعداد بھی تو بڑھا رہا ہے۔
ان حالات میں کیا ہم اور آپ مل کر سگریٹ سے نجات کیلئے اس پر مکمل پابندی لگوا سکتے ہیں! اس کا بالواسطہ لیکن انتہائی صحیح جواب یہ ہے کہ اس انقلاب کو برپا کرنے کیلئے ہمارے پاس درحقیقت اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے جتنی ہمیں اس عفریت سے نجات کیلئے درکار ہے۔ بس ایک بار ہمیں یہ مان کر نئی نسل سے رجوع کرنا ہے کہ تمباکو انسانوں کی غیر طبعی موت اور اس موت سے پہلے تکلیف دہ بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS