تعلیمی اداروں میں حجاب کی اجازت کیلئے دائر عرضیاں خارج

0

بنگلورو (یو این آئی) : کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کو مسلم طالبات کی جانب سے دائر ان تمام عرضیوں کو خارج کر دیا، جن میں درس گاہ (کلاس) کے دوران تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت عالیہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کی جانب سے حجاب پہننا اسلام کے تحت ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور اسکول کے یونیفار م کا نفاذمحض ایک مناسب نظم ہے ، جس پر طلبا و طالبات اعتراض نہیں کر سکتے ۔ ہائی کورٹ کی بینچ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کے پاس اس بابت حکم جاری کرنے کا حق ہے ۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتوراج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی کی 3 رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اس بابت شنوائی کے 11ویں دن، 25فروری کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔قبل ازیں بنچ نے ایک عبوری حکم جاری کیا تھا، جس میں طلبا و طالبات کو نافذ شدہ ’ڈریس کوڈ‘والے کالجوں میں کلاسز (درس گاہ) میں حصہ لینے کے دوران حجاب، بھگوا شال یا کسی بھی مذہبی جھنڈے کا استعمال نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جنوری میں کرناٹک میں اڈوپی واقع ایک سرکاری کالج کی کچھ مسلم طالبات حجاب پہنچ کر کالج پہنچی تھیں، لیکن انھیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اس دوران مسلم طالبات نے استدلال کیا کہ حجاب ان کے تہذیب و مذہب کا حصہ (جزء لا ینفک)ہے ۔ اس معاملے کو شنوائی کیلئے پہلے جسٹس کرشن ایس دکشت کی واحد رکنی بنچ کے سامنے فہرست بند کیا گیا تھا اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اسے بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا کہ اس میں ’بنیادی اہمیت کے سوال‘ شامل ہیں۔ اس معاملے میں مدعی علیہ یعنی ریاستی حکومت نے دلیل دی کہ حجاب پہننا اسلام کی ضروری مذہبی روایت کے تحت نہیں آتا ہے اور حجاب پہننے کا حق آئین کی (دفعہ19(1)اے) کے تحت ملی اظہارِ خیال کی ’آزادی‘ کے تحت نہیں رکھا جا سکتا ہے ۔ عدالت میں شنوائی کے دوران ریاستی حکومت نے یہ بھی دلیل دی کہ اس کا 5 فروری کا حکم ایجوکیشن ایکٹ (تعلیم کے قانون) کے مطابق ہے اور حجاب پہننا عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ)کی جانب سے متعین کردہ آئینی اخلاقیات اور شخصی وقار کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا ہے۔
وہیں کالج اور اساتذہ نے دلیل دی کہ طلبا کو ڈسپلن (نظم و ضبط) اور عوامی نظم و نسق قائم رکھنے کیلئے متعینہ یونیفارم اختیار کرنے کے ضابطے پر عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ ادھر عرضی گزاروں نے جنوبی افریقہ کے آئینی عدالت کے ایک فیصلے کا ذکر کیا، جس میں عدالت نے جنوبی ہند کی ایک ہندو لڑکی کے اسکول میں نَتھ پہننے کے حق کو برقرار رکھا تھا۔ انہوں نے 5فروری کے سرکاری حکم نامے کو بھی چیلنج کیا تھا، جس میں مبینہ طور پر مسلم برادری کو ہدف بنایا گیا تھا۔ اس درمیان تنازع پر عدالت کے فیصلے کے پیش نظر پولیس نے منگل کو 21مارچ تک بنگلور شہر اور کرناٹک کے کئی حصوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔
حجاب تنازع پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے منگل کو طلبا سے کلاس میں شرکت کی اپیل کی اور ساتھ ہی انہیں خبردار کیا کہ امن کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔عدالت کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسٹر بومئی نے طلباء سے کہا کہ وہ کلاس میں جائیں۔ ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر کسی نے عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے امن خراب کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کو مسلم طالبات کی طرف سے داخل کی گئی درخواستوں کو خارج کر دیا، جس میں تعلیم کے دوران تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے ۔ عدالت نے تعلیمی ادارے کو یونیفارم تجویز کرنے کا حق بھی برقرار رکھا۔بومئی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ نے برقرار رکھا ہے ۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی مذہبی حصہ نہیں ہے ۔ ہر ایک کو ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ قانون کو نافذ کرتے ہوئے امن برقرار رکھیں۔ میں تمام مذہبی رہنماؤں، والدین اور طلبا سے بھی امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ضروری انتظامات کیے ہیں۔ حکومت نے پیر کو فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 144کے تحت ریاست کے کئی حصوں میں ممنوعہ احکامات نافذ کر دیے ہیں، جن میں دکشنی کنڑ، شیوموگا اور ہاسن شامل ہیں۔
طلبا کی طرف سے امتحانات کے بائیکاٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے طلبا سے اپیل کی کہ وہ امتحانات کا بائیکاٹ نہ کریں۔ انہوں نے طلبا سے کہا کہ وہ امتحانات کا بائیکاٹ نہ کریں اور اپنا مستقبل بنائیں۔ ریاستی وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ حکومت کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ میں موجود خامیوں کو دور کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یونیفارم ہر ایک کو قوم کے مرکزی دھارے میں لانے میں مدد کرتا ہے ۔ بنگلورو سٹی پولیس کمشنر کمل پنت نے 15مارچ سے 21مارچ تک شہر کے کسی بھی عوامی مقام پر کسی بھی قسم کے اجتماعات یا احتجاج پر پابندی لگا دی ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS