ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا کردیا ہے، کئی ملکوں نے جاسوسی کی اس رپورٹ کی بعد تفتیشی احکامات جاری کردیے ہیں، یہ رپورٹ دنیا کے17اداروں کے ذریعہ منظرعام پر لائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی سرویلانس کمپنی این ایس او گروپ نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے تقریباً پچاس ممالک کے اہم ترین افراد کے50ہزار سے زائد موبائل کی جاسوسی کی ہے۔ اسپائی ویئر دراصل ایک قسم کا سافٹ ویئر ہے جس سے خفیہ جاسوسی کا کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے تقریباً تین سو موبائل نمبروں کا ذکر رپورٹ میں آیا ہے جن کا تعلق سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی، سابق چیف الیکشن کمشنر اشوک لواسا، انڈین نیشنل کانگریس کے صدر راہل گاندھی، سینئر صحافی، اہم پولیس چیف و اعلیٰ افسران، حقوق انسانی کے کارکنان، وکیل، اہم ترین صنعتکار اور حتیٰ کے موجودہ مرکزی وزرا کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کی خفیہ جاسوسی کی جارہی تھی۔
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس پوری طرح اس رپورٹ کی نذر ہوگیا۔ ہنگامہ آرائی کا ماحول رہا۔ الزامات یقینا سنگین ہیں، ایک غیر ملک کی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے ملک کے اہم افراد کی اس طرح سے جاسوسی یقینا تشویشناک ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ حادثہ ملک کی سلامتی اور جمہوری نظام کے خلاف ایک سازش ہے، یہ ہماری آزادی اور تحفظ پر سرکاری حملہ ہے۔ جب کہ حکومت و بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے اس پورے معاملے کو اپوزیشن کی سازش قرار دیتے ہوئے مانسون اجلاس کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سابق مرکزی وزیر نے2013میں ہزاروں لوگوں کے موبائل ٹیپ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے الزامات کو خارج کرنے کی کوشش بھی کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پر ہندوستان مخالف ایجنڈوں میں شامل رہنے کے دعوے بھی کیے تاہم اس پورے معاملہ کی تفتیش کو لے کر سابق مرکزی وزیر کے ساتھ ساتھ پوری حکومت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جب کہ تمام ہی اپوزیشن پارٹیاں اس کی جانچ کے لیے ایک آواز میں مطالبہ کررہی ہیں۔
اگر ہم الزامات پر نظر ڈالیں تو یقینا الزامات اتنے سنگین ہیں جن کی جانچ ہونی چاہیے۔ این ایس او گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ دہشت گردانہ کارروائیوں اور سنگین جرائم کی روک تھام نیز تفتیش کی غرض سے حکومتوں کو پیگاسس اسپائی ویئر فراہم کرتے ہیں، یعنی صاف الفاظ میں این ایس او کے مطابق ان کا خریدار یا موکل صرف حکومتیں یا ان کی سرکاری ایجنسیاں ہی ہوسکتی ہیں۔ کل36ملک کی حکومتیں این ایس او گروپ کی خریدار ہیں۔ این ایس او کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی پرائیویٹ کمپنی یا فرد پیگاسس کا استعمال کرکے جاسوسی کرسکتا ہو۔ پیگاسس کے ذریعے کسی بھی فون یا لیپ ٹاپ میں بآسانی داخل ہوکر پورے فون کو دیکھا اور اس میں موجود تمام ہی فائلوں کو نکالا جاسکتا ہے۔ اس فون یا کمپیوٹر میں موجود تمام میسیج، ای میل، فوٹو، ویڈیو، دستاویز کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اس میں ردوبدل نیز ترمیم کی جاسکتی ہیں۔ آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ کے کیمرے کو آپ کی جانکاری کے بغیر استعمال کرکے آپ کا ویڈیو بنایا جاسکتا ہے، آپ پر نظر رکھی جاسکتی ہے، آپ کہاں ہیں؟ کس کس سے مل رہے ہیں؟ کیا باتیں کررہے ہیں؟ غرض ہر ہر لمحے آپ کو آپ کے موبائل کے ذریعے ہی جاسوسی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ پہلے آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ کو ہیک کرنے کے لیے کوئی لنک بھیجا جاتا تھا جس پر کلک کرنے کے بعد آپ کے لیپ ٹاپ یا موبائل میں اسپائی ویئر داخل ہوجاتا ہے لیکن پیگاسس میں کسی لنک پر کلک کرنا بھی ضروری نہیں ہے یعنی زیرو کلک سے آپ کا موبائل یا لیپ ٹاپ پیگاسس کا شکار ہوجائے گا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 43 اور66 کے تحت ہیکنگ ایک قابل سزا جرم ہے، اگر کسی کی غیر قانونی طریقے سے سرویلانس یا جاسوسی کی جاتی ہے تو متاثر شخص نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی میں شکایت کرسکتا ہے۔
1970-80کی دہائی میں مشہور تھا کہ فون پر اگر رازداری کی باتیں کرنی ہوں تو صبح سویرے کرلو کیونکہ کان میں ہیڈفون لگاکر فون کال سننے والے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ابھی آفس نہیں پہنچے ہوں گے، ہمارے ملک میں کان لگاکر باتیں سننے کا رواج گھروں سے لے کر دفاتر تک عام بات ہوا کرتی ہے۔ ہر زمانے میں حکومتوں کے ذریعے جاسوسی ہونا تاریخ کا اہم باب رہا ہے۔ حکومت کااستحکام خفیہ نظام کی مضبوطی پر منحصر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں انٹلیجنس بیورو کے پاس لامتناہی اختیارات اور بے تحاشہ وسائل و ذرائع دستیاب ہیں جن کی نہ تو کوئی جواب دہی ہے اور نہ ہی کوئی احساس ذمہ داری، کیونکہ حکومت کے فیصلے خفیہ ایجنسی کی خبروں پر ہی منحصر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دیگر ایجنسیوں کی خبروں کی تصدیق بھی خفیہ ایجنسی ہی کرتی ہے۔
ہمارے ملک کے اہم جاسوسی واقعات میں1988کا کرناٹک حادثہ ہے جس کے بعد کرناٹک کے وزیراعلیٰ راماکرشنا ہیگڑے کو اخلاقی بنیاد پراستعفیٰ دینا پڑا تھا، وہیں 1991 میں جاسوسی کے الزامات کے بعد وزیراعظم چندرشیکھر کو مستعفی ہونا پڑا تھا جب ہریانہ سی آئی ڈی کے دو اہلکار راجیوگاندھی کے گھر کے قریب آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کے الزام میں پکڑے گئے تھے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد ہی سماجوادی جنتاپارٹی کی حکومت ڈھیر ہوگئی تھی۔ 1997میں ٹاٹا ٹیپ جاسوسی کے بعد2010میں راڈیا ٹیپ بھی منظرعام پر آئے۔ 2014 میں بلیک بیری میسیجنگ جاسوسی حادثہ ہوا۔ ان الزامات سے کوئی سیاسی پارٹی بری الذمہ نہیں ہوسکتی ہے، بلکہ اپنے مخالفین پر نظر رکھنے کے ہر زمانے میں دستیاب ذرائع کا استعمال حکمراں جماعتیں کرتی رہی ہیں۔
کچھ ہی عرصہ پہلے بھیما کورے گاؤں کے ملزمین کے لیپ ٹاپ میں ممنوعہ مواد پلانٹ کرنے کا دعویٰ کرنے والی آرسینل فارنسک ایجنسی کی رپورٹ نے سب کو چونکا دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق حقوق انسانی کارکن رونا ولسن اور ایڈووکیٹ سریندر گڈلنگ کے لیپ ٹاپ میں ملک مخالف لٹریچر آن لائن غیرقانونی طریقے سے داخل کیا گیا اور اس کے بعد ہی ان کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، جن الزامات میں ضمانت کے امکانات پوری طرح ختم ہوجاتے ہیں۔ لیپ ٹاپ سے اسپائی ویئر کے ذریعے چھیڑچھاڑ کا الزام ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے اوپر لگتا رہا ہے۔
انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ5(2) کے تحت صوبائی پولیس کسی بھی موبائل یا فون کو60دنوں تک ٹیپ کرسکتی ہے لیکن اس کی اجازت صوبہ کی داخلہ سکریٹری سے لینی ضروری ہے۔ مخصوص حالات میں یہ ریکارڈنگ180دن تک بھی ہوسکتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ2000کی دفعہ69 کے مطابق مرکزی حکومت صوبائی حکومت کو فون ٹیپ یا سرویلانس کی اجازت دے سکتی ہے، لیکن یہ اجازت ملک کی سلامتی و اتحاد سے متعلق ضروری معاملات میں ہی مل سکتی ہے۔ ہمارے ملک کی کل دس ایجنسیاں ہیں جو سرویلانس ضروری اجازت کے بعد کرسکتی ہیں، جن میں انٹلیجنس بیورو(آئی بی)، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی)، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، نارکوٹکس ڈرگس کنٹرول بیورو(این سی بی)، سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیز(سی بی ڈی ٹی)، ڈائریکٹوریٹ آف ریوینو انٹلیجنس(ڈی آر ا ٓئی)، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے)، ریسرچ اینڈ انالیسیس ایجنسی(آر اینڈ اے ڈبلیو) ڈائریکٹوریٹ آف سگنل انٹلیجنس(ڈی ایس آئی) اور دہلی پولیس کمشنر(ڈی پی سی) ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ43اور66کے تحت ہیکنگ ایک قابل سزا جرم ہے، اگر کسی کی غیر قانونی طریقے سے سرویلانس یا جاسوسی کی جاتی ہے تو متاثر شخص نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی میں شکایت کرسکتا ہے۔ متاثر شخص پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کرواسکتا ہے۔ انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ26Bکے تحت عدالت میں درخواست بھی دے سکتا ہے۔ الزامات ثابت ہونے پر تین سال تک کی سزا ہے۔ لیکن یہاں دو سوال ہیں، ایک تو یہ کہ ایک غیر ملکی پرائیویٹ کمپنی سے اس قسم کی جاسوسی کے ذریعہ حکومت وہ کون سے راز حاصل کرنا چاہتی ہے اور پھر ان راز کا استعمال کن مقاصد کے لیے کرے گی؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ حکومت جمہوری و دستوری قدروں کا خون کرنے کی اگر مورد الزام ہے تو جواب دہی کون طے کرے گا؟ کیا سپریم کورٹ کے جج اپنی جاسوسی کے بعد فیصلہ برحق کرسکتے ہیں؟ یا سی بی آئی چیف ایمانداری سے تفتیش کرنے کی حالت میں ہوں گے؟ یا چیف الیکشن کمشنر بلیک میل نہیں ہوسکتے؟ جمہوریت کا قتل پھر کیسے ہوتا ہے؟
[email protected]