والدین خُدا کی عظیم نعمت

رب ارحمهما کما ربیانی صغیرا

0

صباء فردوس بنت ناظر چاؤس
اللہ کی عظیم مہربانی اور احسان کے بعد انسان جس کے سہارے پلتا، بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے وہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے وجود کا ظاہری سبب ہیں، اس سے بڑھ کر مخلص اور بے لوث محبت کرنے والی کوئی ذات نہیں اور اس کے بغیر انسانی معاشرے کی تشکیل اور تعمیر ممکن ہی نہیں۔ یہ رشتے کی بنیاد ہیں، یہ بے لوث و بے غرض ایثار کا کامل نمونہ ہیں، اخلاص و محبت کے پیکر ہیں، اولاد کی ہر خواہش و خوشی پر اپنی راحت و خوشی قربان کر دینے والی عظیم ذات ہیں۔ حقوقِ اللہ کے بعد حقوق العباد میں سب سے زیادہ اور اولین حق ماں باپ کا ہے۔ماں باپ کے حقوق کی اہمیت اور اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قرآن پاک نے جگہ جگہ ماں باپ کے حق کو خدا کے حق کے ساتھ بیان کیا ہے ۔سورہ بنی اسرائیل آ یت نمبر 23 تا 24 میں فرمایا کہ ’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہواور دعا کیا کرو پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا ۔‘
والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہیں۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ برقرار ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی اہمیت کو سمجھا جائے کیونکہ ان کے ساتھ حسن سلوک بھی افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔ والدین اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی انمول نعت ہوتے ہیں۔ والدین دنیا کی سب سے اہم ہستی ہیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت سے لے کر نشوونما تک والدین کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو یقیناً باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کا وجود اولاد کیلئے باعث ِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہیں۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ برقرار ہوتا ہے۔ ان ہی خوش نصیبوں میں میرا بھی شمار ہے اور میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب محمد مصطفیٰ ؐ کے صدقے میں مجھ سمیت سب کے والدین کو تادیر سلامت رکھے۔ (آمین)
والدین اپنی اولاد کی راتوں کی نیندیں قربان کر کے پرورش کرتے ہیں۔ اولاد کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دنیا کے تمام سکھ چین گنوا دیتے ہیں۔ پھر وقت کی گھڑیاں گزرتی جاتی ہیں اور والدین اپنی اولاد کو جوانی کی دہلیز پر پہنچا کر ضعیفی لے لیتے ہیں اور مسکرا کر غریبی کے دن بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس وہی اولاد جوان ہو کر فرمان خدا وندی کو بھول جاتے ہیں اور بوڑھے ہوچکے والدین کو بوجھ محسوس کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ حدیث مبارک ہے کہ :ایک شخص نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟
آپ ؐنے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ ؐنے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔(صحیح بخاری)۔رسول اللہؐ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ ( اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کوضائع کردو یا ( اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔(جامع ترمذی)
مَیں آج ان بد نصیب اور نافرمان اولاد کیلئے قلم اٹھا رہی ہوں جو والدین کی قدر نہیں کرتے اور ان کی عظمت کو فراموش کر کے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو ایک ساتھ خراب کر بیٹھتے ہیں اور وہیں یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں ہمیں خوشیاں ہی خوشیاں ملیں اور ساتھ ہی اپنی اولادوں سے فرمانبرداری کی امید بھی لگا لیتے ہیں جبکہ اس بات سے خوب خوب واقف ہوتے ہیں کہ والدین کی خوشنودی میں ہی اللہ رب العزت کی خوشنودی ہے اور والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ آج کی اس ماڈرن ہوتی دنیا میں اولاد جن کے سہارے زندگی پاتی ہے، اسی ماں باپ کی بدولت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں اور اولاد کو جوان دیکھ کر ماں باپ برسوں کے خوابوں کو پورا کرنے کی خواہش میں لگ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہی یہ خوشی کا دن میسر بھی ہوتا ہے کہ والدین اولاد کے سر پر سہرا سجا کر بڑے ارمان کے ساتھ بہو کا استقبال کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں مگر افسوس کہ چند روز ہی گزرنے کے بعد نفرت و عداوت کی ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے جو کہ بہت کم وقت میں زبردست آندھی طوفان میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر بیٹا والدین کی فرمانبرداری سے مکر جاتا ہے، پلہ جھاڑ لیتا ہے، اللہ کی بخشی ہوئی والدین جیسی عظیم نعمت کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ اور بیٹا بیوی بچوں کو اپنے سر کا تاج سمجھ کر ماں باپ کو دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں اور والدین کو ایک وبا سجھ لیتے ہیں کہ انہیں پاس رکھنا تو دور ٹھیک سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جبکہ ارشاد نبوی عالیشان ہے کہ ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھ لینا کامل حج کا ثواب ہے۔ مگر اولاد، والدین کو ایسا بوجھ سمجھ لیتے ہیں کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے بیوی بچوں میں مگن ہو جاتے ہیں یا تو پھر اولڈ ایج ہوم بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ آج ہم جو کھیل ہم اپنے والدین کے ساتھ کھیل رہے ہیں کل کو ہماری اولاد بھی بڑی ہو گی اور ہمارے ساتھ بھی یہ گیم کھیلا جا سکتا ہے۔
میں آج اپنی اس تحریر میں اُن بہوؤں اور لڑکیوں سے بھی مخاطب ہوں جو یہ کہتی ہے کہ شوہر کے والدین کی خدمت اُس پر فرض نہیں۔بلا شبہ آپ سچ کہتی ہیں کہ ساس سسر کی خدمت بہوؤں پر فرض نہیں لیکِن کیا آپ یہ بھول بیٹھی ہے کہ ہم اُس نبیؐ کی اُمت ہے جس نے تاحیات ہمیں حُسنِ اخلاق کا درس دیا ہے۔۔دنیا میں انسان کی کامیابی حُسنِ اخلاق اور اچھے رویہ کے ساتھ خادمانہ سلوک پر مبنی ہے ،نہ کہ ہٹ دھرمی ، انا ، اکڑ بازی ،ضد اور نفرت پر.. دوسروں سے محبت کا سلوک پانے کے لیے خود محبت کا رویہ برتنا بھی ضروری ہے، جو شخص دوسروں کو ستائے اور خود اُن سے محبت کی توقع رکھے وہ نادان و احمق ہے۔۔شوہر، بیوی،ساس اور سسر یہ گاڑی کے وہ پہیے ہیں کہ اگر ان چاروں میں محبت و اتفاق ہو تو زِندگی کی گاڑی بہت اچھی چلتی ہے اور گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے ۔خدارا اپنے والدین کی عظمت کو پہچانیں کیونکہ آپ بھی صاحب اولاد ہوں گے اور اگر آپ نفرت کا بیج بوؤ گے تو پھل بھی کانٹے دار ہی پاؤ گے آپ کی اولاد بھی نافرمان ہو گی۔ ہر طرف نفرت اور عداوت ہو گی، وقت کافی تبدیل ہو چکا ہو گا الفت محبت کا نام و نشاں تک نہ ہو گا۔ ماں باپ آپ سے دور کوسوں دور ہو چکے ہوں گے ماں کی دعا اور باپ کے سایے سے محرومی ہو چکی ہو گی۔ زندگی میں لا چارگی ہو گی لوگوں کے طنز اور طعنے تلخیاں آپ کو ڈس رہی ہوں گی۔ لوگ آپ کے نام پر تھوک رہے ہوں گے اور آپ صرف اور صرف احساس کا دریا بنے بیٹھے ہوں گے۔ درد سے تڑپ کر اپنے والدین کو پکارو گے مگر افسوس وہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو گی کیونکہ وقت گزر نہیں بلکہ کافی پیچھے چھوٹ چکا ہو گا۔ لہٰذا والدین کی قدر کو سمجھیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں کیونکہ مرتبہ ان کا بہت ہی اعلیٰ اور ہستی بہت ہی مقدس ہے کیونکہ ان کے رخصت ہوتے ہی بےبسی، تنہائی، یتیمی، بدنصیبی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے والدین کی عزت و احترام کرنے والا بنائے اور ہمیں اپنے والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS