یہ سچ ہے کہ کسی ملک کے اقتدار کی باگ ڈور ایک لیڈر سے دوسرے لیڈر کے ہاتھ میں جانے سے پوری پالیسی نہیں بدل جاتی مگر سچ یہ بھی ہے کہ پالیسی پراثر پڑتا ہے، اس لیے نظر اس بات پر ہوگی کہ پشپ کمل داہال کے، جنہیں عام طور پر پرچنڈ نام سے جانا جاتا ہے، نیپال کا وزیراعظم بن جانے کے بعد نیپال کے ہندوستان سے کیسے تعلقات رہیں گے؟ نیپال کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہوگا یا ہندوستان کی طرف؟ آج اگر اس طرح کے سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو یہ اس کے باوجود حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان اور نیپال کے مابین لسانی، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی طور پر بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے، نیپال کے لوگوں کو ہندوستان اور ہندوستان کے لوگوں کو نیپال دوسرا وطن لگتا ہے، دونوں ملکوں میںصدیوں سے ’روٹی، بیٹی‘ کا رشتہ رہا ہے۔
پرچنڈ تیسری بار نیپال کے وزیراعظم بنے ہیں۔ 1996 سے 2006 تک نیپال کے حالات خراب تھے، حکومت اورماؤ نوازوں کے مابین خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی تو پرچنڈ ہندوستان آگئے تھے۔ نیپال میں امن قائم کرانے میں ہندوستان نے اہم رول ادا کیا۔ نومبر2006 میں نئی دہلی میں ماؤنوازوں کی 7 پارٹیوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور نیپال میں حالات بہترہونے کی امید بندھی تو امید اس بات کی بھی بندھی تھی کہ نیپالی لیڈران ہندوستان کے اس تعاون کو کبھی فراموش نہیں کریں گے، ہندوستان اور نیپال کے تعلقات اور مستحکم ہوں گے۔ 2008 میں پرچنڈ پہلی بار نیپال کے وزیراعظم بنے تو اسے ہندوستان کے لیے نیک فال سمجھنا غلط نہیں تھا لیکن وہ پہلے دورے پرچین چلے گئے۔ ان کا پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کا انتخاب کرنا یوں ہی نہیں تھا، یہ چین کی طرف ان کے جھکاؤ کا اشارہ تھا، بعد میں ان کے قول و عمل میں بھی اس کی جھلک نظر آئی۔ نیپال کے وزیراعظم کی حیثیت سے پرچنڈ کی پہلی مدت کار 2009 میں ختم ہوگئی۔ دوسری بار وہ 2016 میں وزیراعظم بنے اور اگلے ہی سال اقتدارکی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے چلی گئی۔ اب تیسری بار پرچنڈ نیپال کے وزیراعظم بنے ہیں تو یہ امید پھر ان سے کی جاتی ہے کہ ان کی پالیسی ہندوستان اور نیپال کے تاریخی رشتوں کے مطابق ہی ہوگی۔ اس امید کے بندھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اسی سال جولائی میں ہندوستان آئے تھے اوربی جے پی کے سربراہ جے پی نڈا سے ملاقات کی تھی۔ پرچنڈ کے ہند موافق پالیسی اختیار کرنے کی امید دنیا کے بدلتے حالات کے مدنظر بھی ہے مگر کیا وہ ہندوستان سے نیپال کے تعلقات مستحکم بنا پائیں گے؟ اس پرابھی کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے اوراس کی وجوہات ہیں۔ کے پی شرما اولی کے وزیراعظم رہتے ہوئے نیپال کا جھکاؤ چین کی طرف تھا، انہی کی مدت کار میں نیپال کا متنازع نقشہ جاری ہوا اور اس نے کالاپانی، لیپولیکھ، لمپیادھورا پردعویٰ کیا۔ ان کی مدت کارمیں کئی اور ایسی باتیں ہوئی تھیں جس سے یہ لگتا تھا کہ وہ مسلسل چین کو خوش رکھنے والے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ پرچنڈ نے اولی کی پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے اور خبر یہ آئی ہے کہ ڈھائی سال تک پرچنڈ نیپال کے وزیراعظم رہیں گے جبکہ اس کے بعد سی پی این-یو ایم ایل اقتدار سنبھالے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر کے پی شرما اولی کے نیپال کا وزیراعظم بننے کا امکان رہے گا۔ ایسی صورت میں یہ امید کس حد تک رکھنی چاہیے کہ پرچنڈ کی مدت کار میں نیپال کی پالیسی ہند موافق رہے گی؟ لیکن پرچنڈ نے اگر دنیا کے بدلتے حالات کے مدنظراقدامات کیے، اگرنیپال کومستحکم بنانے کے مدنظراقدامات کیے اور مضبوط قوت ارادی کا ثبوت دیا تو ہندوستان سے نیپال کے تعلقات زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے میں انہیں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی، کیونکہ آج نیپال کا سب سے بڑا ٹریڈپارٹنرہندوستان ہی ہے۔ 2021 میں نیپال نے اپنی برآمد کی جانے والی مجموعی اشیا کا 53.1 فیصد ہندوستان کو سپلائی کیا تھا۔ اسی طرح درآمد کی جانے والی مجموعی اشیا کا 68.03 فیصد ہندوستان سے منگوایا تھا۔ وقت رہتے نیپال کے لیڈروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ چین کی پالیسی ’قرض-جال‘ میں الجھانے، مرعوب کرنے اور دائرۂ اثر بڑھانے کی پالیسی ہے جبکہ ہندوستان کی پالیسی بقائے باہم کی ہے، وہ پڑوسی کو پڑوسی ہی سمجھتا ہے اور اسی لیے اس کی ترقی دنیا کو ڈراتی نہیں ہے۔ ہندوستان سے مستحکم تعلقات میں نیپال کا ہی فائدہ ہے، یہ بات سمجھتے ہوئے ہی نیپالی لیڈروں کو اپنے ملک کو آگے بڑھانا ہوگا۔
[email protected]