مسئلۂ فلسطین:مسلم ممالک بدل گئے یا حالات؟

0

مسئلۂ فلسطین کوئی برس چند برس پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود، کہ یہ مسئلہ دنیا کے ان مسئلو ں میں سے ایک ہے جو ابھی تک حل نہیں کیے جا سکے ہیں، ایسا لگتا نہیں کہ مسئلۂ فلسطین برس چند برس میں حل کر لیا جائے گا۔ طاقت کے زور پر مسئلۂ فلسطین کا حل نکالنے کے لیے عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین کئی جنگیںہوئیں لیکن حل نہیں نکل سکا۔ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد اقتدار کی باگ ڈور انور سادات نے سنبھالی تھی۔ ان کی سوچ جمال عبدالناصر کی سوچ سے مختلف تھی۔ ان کے لیے مسئلۂ فلسطین کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اسے حل کرنے کے لیے اپنے ملک کے مفادات کو پرے رکھ دیتے، اسرائیل سے تلخ تعلقات کی پروا نہیں کرتے۔ 26 مارچ، 1979 کو مصر نے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے لیے نئے دور کی باضابطہ ابتدا کی۔ ’باضابطہ ابتدا‘ لکھنا اس لیے ضروری ہے، کیونکہ اس سے قبل 1978 میں مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان خفیہ ملاقات ہو چکی تھی، کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط ہو چکے تھے۔ اس کے بعد بظاہر حالات سازگار بنائے گئے، مسئلۂ فلسطین کے حل کی امید بندھائی گئی۔ 13 ستمبر، 1993 کو اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو 1 معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 26 اکتوبر، 1994 کو اسرائیل اور اردن کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ 24 ستمبر، 1995 کو اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو 2 معاہدہ ہوا۔ اس سے یہ امید بندھی کہ مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکل جائے گا، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان دشمنی قصہ پارینہ بن جائے گی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اوسلو معاہدے میں اسرائیلیوں کی طرف سے اہم رول ادا کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کا قتل کر دیا گیا۔ بظاہر یہ ایک بڑے لیڈر کا قتل تھا مگر اصل میں یہ اس بڑے خواب کا قتل تھا کہ مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکال لیا جائے گا، فلسطینی اور اسرائیلی پرامن زندگی بسر کریں گے، مشرق وسطیٰ کے ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کے قتل نے یہ اشارہ دے دیا کہ تمام اسرائیلی مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نہیں چاہتے۔مسئلۂ فلسطین کا ’دو ریاستی حل‘ نکالنے کی باتیں دیوانے کی باتیں ہیں لیکن یاسر عرفات زندہ تھے، اس لیے اس مسئلے کے دو ریاستی حل کی امید برقرار تھی۔ اس وقت تک امریکہ کی فلسطین پالیسی سے بھی یہی لگتا تھا کہ دو ریاستی حل نکلنے کی امید پوری طرح معدوم نہیں ہوئی ہے مگر کسے پتہ تھا، جیسے جمال عبدالناصر کے بعد مصر کی اسرائیل پالیسی بدل گئی اسی طرح اسحاق رابن کے قتل کے بعد مسئلۂ فلسطین پر اسرائیلی لیڈروں کا موقف بدل جائے گا۔
یاسر عرفات کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں یہ بات موضوع بحث بن گئی کہ یاسر عرفات کیا فطری موت مرے؟ یہ بحث یہ سمجھا دینے کے لیے کافی تھی کہ اوسلو معاہدے کی وجہ سے یاسر عرفات بھی کسی کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے مگر اس سلسلے میں کوئی بات دعوے سے کہنا مشکل تھا، البتہ یاسر عرفات کے دنیا سے جانے کے بعد فلسطینیوں کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں رہ گیا تھا جسے تمام فلسطینی اپنا لیڈر مانتے ہوں۔ فلسطین کا آج کون ایسا لیڈر ہے جسے مغربی کنارے کے فلسطینی بھی اتنا ہی مانتے ہیں جتنا غزہ کے فلسطینی اور دیگر ممالک میں رہنے والے فلسطینی؟ یاسر عرفات دنیا کی بدلتی ہوا سے واقف تھے۔ وہ مختلف ملکوں کے دورے کیا کرتے تھے، مختلف ممالک کے لیڈروں سے ملا کرتے تھے۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ دونوںایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
محمود عباس کو فلسطینیوں کا لیڈر بنانے کی کوشش کی گئی۔ محمود عباس نے بھی بغیرکہے خود کو تمام فلسطینیوںکا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ محمود عباس نے ایسی کوشش نہیں کی، پھر یہ سوال اس سے کیا جانا چاہیے کہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے منعقدہ ایناپولیز کانفرنس میں شرکت کرتے وقت محمود اس مطالبے پر بضد کیوں نہیں ہوئے کہ حماس کے لیڈروں کو بھی کانفرنس میں شامل کیا جائے جبکہ وہ جانتے تھے کہ غزہ پر حماس کا قبضہ ہے؟ محمود عباس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی عمر 88 سال کی ہو چکی ہے لیکن فلسطین کے صدر بھی وہی ہیں، پیلسٹینین نیشنل اتھارٹی کے صدر بھی وہی ہیں اور پی ایل او یعنی پیلسٹائن لبریشن آرگنائزیشن کے چیئرمین بھی وہی ہیں۔ غزہ جنگ دو مہینے سے جاری ہے، 18000 سے زیادہ فلسطینیوں کی جانیں تلف ہو چکی ہیں مگر محمود عباس کی آواز کون سن رہا ہے؟ کیوں نہیں سن رہا ہے؟ وہ ممالک جو انہیں تمام فلسطینیوں کا لیڈر ثابت کرنے پر آمادہ تھے، ان کے لیے محمود عباس کے بیانات کی کتنی اہمیت رہ گئی ہے، یہ سمجھنے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ یہ ان کی ناکامی ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا حل نہیں نکل سکا اور ایک سے زیادہ مسلم ممالک نے اسرائیل سے رشتے استوار کر لیے۔ ان میں عرب ممالک بھی ہیں۔ آخر محمود عباس انہیں یہ سمجھانے سے قاصر کیوں رہے کہ اس کا اثر خود ان کے اپنے لوگوں پر اچھانہیں پڑے گا، کیونکہ مسجد اقصیٰ کی وجہ سے دیگر ممالک کے مسلمانوں کی طرح عرب ممالک کے مسلمانوں نے بھی مسئلۂ فلسطین کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔
محمود عباس کے کمزور پڑنے کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کی اسرائیل پالیسی واضح کر دی، یہ اشارہ دے دیا کہ اوسلو معاہدہ اور مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل گزرے دنوں کی باتیں ہو گئیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراقش اور سوڈان کے لیے حالات بدل گئے یا ان ممالک نے حالات بدلنے کے لیے اسرائیل سے رشتہ استوار کیا، یہ کہنا مشکل ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ان ممالک نے اسرائیل سے ابراہم معاہدہ کیا جبکہ سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے بھی یہ معاہدہ کرنے کی باتیں کہی جا رہی تھیں۔ یہ بات الگ ہے کہ حماس کے حملے اور اسرائیل کی غزہ جنگ نے نئے حالات بنا دیے ہیں اور اب کسی عرب ملک کے لیے 7 اکتوبر، 2023 سے پہلے کے حالات میں واپس لوٹنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے جانیں گنوانے پر عام عرب کیا سوچتے ہیں، اس کا اندازہ عرب ملکوں میں ہونے والے مظاہروں سے بھی ہوتا ہے۔ n

 

غزہ جنگ دو مہینے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے مگر فی الوقت جنگ ختم ہونے کی امید نظر نہیں آتی۔ حالات کے بدترین ہونے کا اندیشہ ہے اور اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا کے لیے غزہ کے حالات کے بارے میں جاننا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی 11 دسمبر، 2023 کی رپورٹ کے مطابق، ’غزہ میں 63 جرنلسٹس اور میڈیا ورکرس مارے جا چکے ہیں۔‘ کئی جرنلسٹوں کے اپنوں کی جانیں گئی ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا وہ صحافت کرنے کی پوزیشن میں ہیں مگر آزاد صحافت اور آزادی اظہار رائے کے نام مذموم حرکتوں کو بھی جائز ٹھہرانے والے ممالک خاموش ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی خاموشی تو خیر قابل فہم ہے، کیونکہ اس کے لیے ہر وہ بات صحیح اور جائزہے جو اسرائیل کہتا ہے۔خود بائیڈن نے اسپتال کے حملے پر وہی زبان بولی تھی جو اسرائیلی حکومت کی زبان تھی اور اس پر شاید ہی کسی کو حیرت ہوئی ہو، البتہ حیرت اس بات پر ضرور ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اب تک امریکہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسانیت کا معاملہ کہیں بھی ہو، امریکہ نظرانداز نہیں کرے گا لیکن اندازہ ہوا، امریکہ بھی مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس پر عملی احتجاج نہیں کیا ہے کہ اسرائیل اسپتالوں پر بمباری کیوں کرتا ہے؟ بحث کی خاطر یہ بات مان لی جائے کہ جن اسپتالوں پر بمباری کی گئی، وہ تمام کے تمام اسپتال حماس کے لوگوں کا اڈہ تھے، تب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انہیں مارنے کے لیے اسپتال پر بمباری آخری متبادل تھا؟ ان اسپتالوں پر بمباری کرتے وقت یہ بات کیوں نہیں سوچی گئی کہ اسپتال میں لوگ عیش کرنے کے لیے نہیں جاتے۔ وہاں مریض جاتے ہیں، زخمی جاتے ہیں، زندگی کے لیے جنگ لڑنے والے جاتے ہیں اور انہیں بچانے کی جدوجہد کرنے والے لوگ دہشت گرد نہیں ہوتے۔ ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارۂ صحت کے حوالے سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’غزہ میں اب صرف ایک تہائی اسپتال عارضی طور پر فعال ہیں۔‘ڈبلیو ایچ او کے رچرڈ پیپرکورن کا کہنا ہے کہ ’صرف 66 دنوں میں غزہ میں صحت عامہ کا نظام 36 فعال اسپتالوں سے سکڑ کر 11 عارضی فعال اسپتالوں پر آچکا ہے۔ ان میں سے صرف ایک شمال میں جبکہ 10 اسپتال جنوب میں ہیں۔‘ایسی صورت میں یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ زخمیوں کے علاج میں دشواری پیش نہیں آئے گی اور پہلے کے مقابلے زیادہ لوگوں کی جانیں نہیں جائیں گی؟ مگر یہ سوال جواب طلب ہے کہ ایک طرف صحافیوں کو اور دوسری طرف اسپتالوں کو نشانہ بنایا جانا محض اتفاق ہے؟ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS