فلسطین:صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سازش

0

اسرائیل غزہ تنازعہ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی فارمولے پیش کرچکا ہے۔ اس کا بنیادی اعتقاد بم برسا کر اس ’حقیر مخلوق‘ جس کو اسرائیل کے لیڈر ’ہیومن اینمل‘ (انسانی جانور) قرار دے چکے ہیں کو ختم کرنا ہے۔فلسطینیوں سے نمٹنے کے لیے یہ پالیسی نئی نہیں، اس پالیسی پر صیہونی حکومت گزشتہ دہائیوں سے عمل کررہی ہے اور جس سفاکی اور’مستقل مزاجی‘ کے ساتھ معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، اس سے ثابت ہوتاہے کہ اس مسئلہ فلسطینی عوام کا ایک ہی حل ہے اور یہ ہے کہ ان فلسطینیوں کی پوری آبادی کو ہی کسی مناسب جگہ منتقل کردیا جائے۔جوفارمولے فلسطینی مخالف یرقان زدہ میڈیاپیش کیاگیا ہے اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ فلسطینی ہی فساد کی جڑ ہیں۔ وہ آزادی مانگ رہے ہیں تو ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کاراستہ نہیں ہے کہ ان کو دریابرد کردیاجائے یا دربدر کردیا جائے۔ایک اور فارمولہ جس کے تحت غزہ کے اندر ہی ایک سیکورٹی زون بنانے کا شوشہ چھوڑ جارہا ہے۔ اردن نے اسرائیلی قیادت کے ذریعہ پیش کیے جارہے فارمولوں کو رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اردن کو ایسا کوئی بھی فارمولہ قابل قبول نہیں جس کے تحت اسرائیل اس خطے پر واپس اپنا قبضہ کرلے یا غزہ کے محصور خطے میں کوئی سیکورٹی زون بنادیاجائے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کایہ بیان اس وقت آیا ہے جب اسرائیل کے حواری اور خود ’کینسٹ‘ (اسرائیلی پارلیمنٹ)کے ممبران اس طرح کے فارمولے پیش کررہے ہیں۔مشہور میڈیا ادارے Wall Street Journal میں امریکی کانگریس کے ممبر ڈینی ڈالوں اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے ایک مشترکہ آرٹیکل لکھا تھا جس میں غزہ کی پوری فلسطینی آبادی ان کے آبادی وطن سے منتقل کرنے کی بات کہی تھی ۔ یہ فارمولہ نیا نہیں ہے ۔ وزیراعظم اسرائیل نتین یاہو پہلے ہی اس طرح کا ’’ حل ‘‘پیش کرچکے ہیں۔ نیتن یاہو سے قربت رکھنے والے ایک تھنک ٹینک اس بابت رائے عامہ بنا رہا ہے۔ حماس کے حملہ کے بعد سے ہی مصر پر دبائو ڈالا جارہا ہے تھا کہ وہ اپنی راہداری کھول دے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر کے اندر قبول کرلے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی میڈیا بہت دھوم دھام سے اسرائیل کے اس فارمولے یا حل کو فلسطینیوں پر تھوپنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ صحافی مختلف فلسطینی اور عرب دانشوروں سے یہ سوال کرتے نظرآتے ہیں کہ اتنے امیر، دولت مند اور وسائل والے عرب اور مسلم ممالک فلسطینیوں کے مسائل کو حل کیوں نہیںکرسکتے ہیں۔
اردن اور مصر مسئلہ فلسطین کے اہم فرق ہیں اور دونوں کے تعلقات اسرائیل سے ہیں۔ غزہ پر حالیہ صیہونی جارحیت کے بعد سے مغربی اس طرح کا دبائو ڈالا جارہا تھا، اس پر مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا اور اب اردن کے فرماں رواں عبداللہ نے سخت الفا ظ میں واضح کردیا ہے کہ فلسطینیوں کے مسائل حل کیے بغیر اور ان کو ایک آزاد مملکت دیے بغیر یہ تنازع حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کا فوجی کارروائی کے ذریعہ حل نہیں نکالا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں غزہ کا نظام و انصرام سونپے جانے کا اشارہ دیا تھا اور اس طرح کے مبہم فارمولے جو اسرائیل یااس کے حواریوں کے ذریعہ پیش کیے جارہے ہیں۔ مگر اب مسلم اور عرب ممالک کے سربراہ اجلاس کے بعد حالات میں اسرائیل نے بالکل واضح کردیا ہے کہ محمود عباس کے اقتدار کی مغربی کنارے سے غزہ میں توسیع نہیں ہوپائے گی اور غزہ پر مکمل طور پر اسرائیل کا کنٹرول رہے گا۔ اسرائیل نہیں چاہتا ہے کہ محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی جس پر پی ایل او اور الفتح کا قبضہ ہے۔ وہ غزہ پر حماس کے خاتمہ کے بعد کنٹرول حاصل کرلے۔ کیونکہ حماس کے برخلاف الفتح ایک عالمی سطح پر منظورشدہ پارٹی اورتنظیم ہے اور اس کا پورا کنٹرول بین الاقوامی امور پر ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر ممالک میںالفتح او رپی ایل او کے نمائندگی پی ایل اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اور اب عرب ملکوں او ر دیگر اسلامی ملکوں میں پی ایل اتھارٹی کو نمائندگی شناخت اور ہر طرح کی معاونت ملتی ہے۔ الفتح اور پی ایل اتھارٹی کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل نے حماس کو ہرممکن تعاون دیا،پھلنے پھولنے و جنگی مہارت اور ساز وسامان وہتھیار حاصل کرانے کی آزادی دی اور اس حماس کو اس قدر طاقت ور بنادیا کہ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان 2005اور اس کے بعد زبردست تصادم ہوئے اور دونوں فلسطینی تنظیموںکے لڑاکوں کا جانی مالی نقصان ہوا۔
اب اگر حماس کے ’ خاتمہ کے بعد‘ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں پیر پھیلانے کی اجازت اور آزادی اسرائیل نے دی تو اسرائیل کے سامنے حماس سے بھی بڑا خطرہ سامنے آجائے گا۔ لہٰذا اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس کے سامنے کوئی اور بڑا قانونی طور پر مضبوط اور عالمی سطح پر شہرت یافتہ تنظیم کھڑی ہوجائے اور جس پر وہ دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ بھی نہ لگاسکے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS