پاکستانی معیشت کو سنگین چینلجزکا سامنا: ماہرین

0

اسلام آباد(ایجنسیاں) : عمران خان کے جلسوں اور سیاسی اتحادیوں کی طرف سے مطالبات کی وجہ سے حکومت کو سیاسی محاذ پر چیلنجوں کا سامنا تو ہے ہی لیکن کئی ماہرین کے خیال میں اصل چیلنج معیشت کی بہتری ہے۔موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومت کی بدترین کارکردگی کو آجکل موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے عمران خان کی حکومت معاشی محاذ پر جگہ جگہ لینڈ مائنز بچھا کر گئی ہے۔ نئی حکومت کے مطابق عمران خان نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پیٹرول پر دی ، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دے ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بہت برے حال میں ہے لیکن یہ کہ وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بہتری کو لانا اتنا آسان نہیں ہے۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا خیال ہے کہ پاکستان میں صنعت کاری کے بجائے صنعتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے .جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور آپ کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ اشفاق احمد خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ عمران خان کی حکومت معیشت کو بہت برے حال میں چھوڑ کرگئی ہے۔ ”کورونا وائرس کی وبا کے باوجود گروتھ پچھلے سال پانچ اعشاریہ سات فیصد تھی جبکہ اس سال امکان ہے کہ یہ پانچ فیصد ہوگی۔ بالکل اسی طرح ایکسپورٹ 31 بلین ڈالرز کی تھی اور جو زرمبادلہ بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجا ہے وہ بھی 31 بلین ڈالر کے قریب تھا۔ زراعت میں بھی ریکارڈ پیداوار ہوئی جب کہ صنعت میں 8 فیصد شرح نمو رہی۔‘‘اقتصادی امور کی ماہر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں ہماری درآمدات بہت بڑھ گئی ہیں، جس کی وجہ سے معیشت پر بہت بوجھ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’ہمیں غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانی چاہیے۔ آج بھی ہمارا پیسہ درآمدکردہ مکھن، چاکلیٹ، کار، موبائل فونز، کتے اور بلیوں کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر خرچ ہورہا ہے۔ ان پر کم از کم ایک سال تک پابندی لگائی جائے تاکہ ہم زرمبادلہ کو بچا سکیں۔‘
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔ ’میرے خیال میں حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مزید قرضے نہ لے۔ توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ جب آپ قرضے زیادہ لینگے تو یقینا آپ کو اس پر سود بھی دینا پڑے گا جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔‘ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا لیکن ہمارا ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ ’لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق حکومت کو ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے ٹیکسز ٹارگیٹڈ ہونے چاہیں۔ ’جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے، ان پر ٹیکس کم کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔
حکومت نے ساری درآمدات پر ٹیکسز لگائے جس کی وجہ سے خام مال کی قیمت بڑھی اور اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور معیشت کو نقصان پہنچا۔‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کی معیشت اپنے غیر پیداواری اخراجات کی وجہ سے کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانی پڑیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’ قلیل المدتی پالیسی میں ہمیں اپنا مالی خسارہ کم کرنا پڑے گا، جس کے لیے حکومت کے حجم اور اس کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا جب کہ جو سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں اور سرکار ان کو اربوں روپے دے رہی ہے، ان کی یا تو نجکاری کرنی ہوگی یا انہیں منافع بخش بنانا ہوگا، اس سے مالی خسارہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق طویل المدتی پالیسیوں میں ہمیں زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی اور زمین کی خرید کے لیے حد بندی کرنا ہوگی۔ ’اس کے علاوہ اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر دینا ہوگا تا کہ ہم افرادی قوت کو برامد کر سکیں۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS