اجے ساہنی
امریکہ پر 11ستمبر کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو 20سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ان دو دہائیوں میں اس ایک واقعہ کی وجہ سے دنیا پوری طرح بدل گئی۔ یہ بھی کم ڈرامائی نہیں کہ جب اس دہشت گردانہ واردات کی 20ویں برسی نزدیک آرہی تھی، تب امریکہ تیاری کررہا تھا افغانستان سے نکلنے کی۔ آخر میں اس کی واپسی پوری طرح افراتفری اور لگائے گئے اندازوں کے برعکس ثابت ہوئی۔ شاید یہی کہنا صحیح ہوگا کہ طالبان کے سامنے افغانستان کو ’پروس‘ دیا گیا۔
افغانستان سے امریکہ کے یوں ہٹنے کو 1975میں سائیگان میں لڑی گئی آخری جنگ کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ حالاں کہ اس واقعہ کے بعد امریکہ نے ایک گلوبل سپرپاور کے طور پر خود کو کافی مضبوط کیا۔ اس وقت بھی بھلے ہی امریکی طاقت پر سوال کھڑے کیے جارہے ہوں، لیکن اس کی طاقت برقرار ہے۔ اب بھی اس کے پاس گلوبل جی ڈی پی کا 23فیصد حصہ ہے اور فی شخص مجموعی گھریلو پیداوار چین سے تقریباً 6گنا ہے۔ امریکہ کی پالیسیوں کے تعلق سے یقینی طور پر تشویشات ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ طویل عرصہ تک وہ ایسی طاقت بنا رہے گا، جو دنیا کو متاثر کرسکے۔
امریکہ نے دہشت گردی مخالف لڑائی کے نام پر جو جنگ چھیڑی، اس نے پورے مشرق وسطیٰ میں انتشار پھیلا دیا۔ مغربی ممالک چل پڑے عراق، شام اور لیبیا میں، جسے کسی طرح منطقی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان میں جہاں امریکہ کے گھسنے کی ایک واجب وجہ تھی، وہاں اس کی طاقت کمزور پڑگئی۔ اس سب کا سب سے برا اثر ہوا دہشت گردی کے عروج کے طور پر۔ تھوڑے وقت کے لیے اسلامک اسٹیٹ یا داعش ابھر کر آگیا، جس نے بڑے علاقہ پر قبضہ کرلیا اور پوری دنیا میں دہشت گردی کو بڑھایا۔ 2014میں عالمی دہشت گردی عروج پر تھی۔ اس میں سب سے زیادہ سرگرم تھی داعش، لیکن اس کے بعد سے اس تنظیم کا اثر کم ہوتا گیا ہے۔ خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا کہ 2017میں داعش کے زوال کے بعد گھر لوٹنے والے ہزاروں جنگجو مغرب میں تشدد کا دور لادیں گے۔ حالاں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان اندازوں کے باوجود امریکہ یا یوروپ میں کوئی منظم دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے۔ اب مغرب میں اہم خطرہ ہے گھریلو دائیں بازو کی دہشت گردی۔
جـمـوں و کـشـمـیـر مـیـں دہـشـت گـردی اس وجـہ سـے کـم نـہـیـں ہـوئـی، کـیـوں کـہ پـاکسـتـان مـیـں لـوگ نـہـیـں تـھـے یا اس کے پاس وسائل کی کمی ہوگئی تھی۔ دہشت گردانہ واقعات میں کمی آنے کی وجہ رہی ہندوستانی فوج اور مقامی سطح پر اسے ملی حمایت۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اس خدشہ کو سرے سے خارج کردینا نا سمجھی ہوگی کہ دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح گھبراکر کسی نـتـیـجـہ پـر پـہـنـچـنـا بھـی نـا سـمــجـھـی ہـوگــی۔
دنیا میں وقوع پذیر ہورہے ان واقعات سے ہندوستان بھی متاثر ہوا۔ 2001میں جب امریکہ پر حملہ ہوا تھا، وہ سال دہشت گردی کے لحاظ سے ہندوستان کے لیے بھی سب سے برا ثابت ہوا۔ اس برس 5504لوگوں کی دہشت گردانہ واقعات میں موت ہوئی۔ صرف جموں و کشمیر میں ہی 4011 جانیں گئیں۔ 2011کے بعد پورے ملک میں ہونے والی اموات میں کمی آئی ہے۔ 2020میں یہ تعداد کم ہوکر 591رہ گئی تھی اور اس سال 5ستمبر تک اعدادوشمار 366ہیں۔ جموں و کشمیر میں 2012میں سب سے کم جانیں گئیں، صرف1211حالاں کہ بعد میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس سال 5ستمبر تک 162لوگ دہشت گردی سے منسلک واقعات میں جان گنوا چکے ہیں۔ ان معاملات کے بڑھنے کی وجہ ہے پولرائزیشن کی سیاست اور مشتبہ گھریلو پالیسیاں۔
اسامہ بن لادن نے 1996میں القاعدہ کی جانب سے ہندوستان میں جہاد کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ اس طرح کی اپیل کی گئی۔ سال2014میں اس علاقہ کے لیے القاعدہ نے ایک تنظیم بنائی۔ جموں و کشمیر میں تھوڑی کامیابی کے باوجود انصار غزوۃ الہند کوئی مؤثر نیٹ ورک بنانے میں ناکام رہا۔ یہ ہندوستانی زمین پر کوئی بڑی واردات نہیں کرسکا ہے۔
داعش نے جون 2014میں اپنا نقشہ جاری کیا تھا۔ یہ نقشہ دکھاتا تھا کہ اس دہشت گرد تنظیم کا دنیا میں غلبہ کہاں ہے۔ اس میں ہندوستان کو ’ولایت خراسان‘ کے حصہ کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس سے اس خدشہ کو تقویت ملی کہ بڑے پیمانہ پر دہشت گردانہ حملے ہوسکتے ہیں۔ تب سے 7برس گزر چکے ہیں۔ داعش یا اس کی معاون تنظیموں نے کوئی بڑی واردات انجام نہیں دی۔ داعش سے متاثر ایک گروپ نے ایک واقعہ کو ضرور انجام دیا تھا۔ 7مارچ 2017 کو بھوپال- اجین پیسنجر ٹرین میں ایک دھماکہ کیا گیا۔ اس میں 12مسافر زخمی ہوئے۔ داعش کے کم ہوتے اثر کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صرف169ہندوستانی شہری اس میں شامل ہونے کے لیے عراق، شام یا افغانستان گئے تھے۔ ان میں سے 56کے مارے جانے کی تصدیق ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی زمین سے آپریٹ ہونے والی اور وہاں سے حمایت یافتہ دہشت گردانہ تنظیمیں ہی ہندوستان کے لیے اہم خطرہ ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں وہ بھی اپنا اثر کھوچکی ہیں۔ اس کے پیچھے اسلام آباد پر بین الاقوامی دباؤ بڑھنے سمیت کئی دیگر اسباب ہیں۔ ایک طائرانہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ افغانستان میں جہاد کی جنگ لڑرہے دہشت گرد اب خالی ہوچکے ہیں۔ افغان جیت کے بعد ان کا رُخ جموں و کشمیر کی جانب ہوسکتا ہے۔
جموں و کشمیر میں دہشت گردی اس وجہ سے کم نہیں ہوئی، کیوں کہ پاکستان میں لوگ نہیں تھے یا اس کے پاس وسائل کی کمی ہوگئی تھی۔ دہشت گردانہ واقعات میں کمی آنے کی وجہ رہی ہندوستانی فوج اور مقامی سطح پر اسے ملی حمایت۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اس خدشہ کو سرے سے خارج کردینا ناسمجھی ہوگی کہ دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح گھبراکر کسی نتیجہ پر پہنچنا بھی ناسمجھی ہوگی۔
(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ مینجمنٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں)
(بشکریہ: نو بھارت ٹائمس)