پاکستان: مارشل لا نہ لگانے کی فوج کی یقین دہانی

0

اسلام آباد (ایجنسیاں) :افواجِ پاکستان کی جانب سے پاکستان میں اب مارشل لا نہ آنے کی یقین دہانی اور جمہوریت کے حق میں بیانات کو جہاں سراہا جا رہا ہے تو وہیں بعض حلقے اب بھی یہ کہتے ہیں کہ فوج سیاسی معاملات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ طاقت کی جنگ ہے اور کوئی بھی صرف بیانات کے ذریعے اس سے دْور رہنے کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔پاکستان کی جمہوری تاریخ فوج کی سیاست میں مداخلت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کئی برس تک فوج براہِ راست طاقت میں رہی تو کئی ادوار میں فوج پر یہ الزام لگتے رہے کہ وہ درپردہ سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سیاست دانوں کی غلطیوں ،کوتاہیوں یا کرپشن کی فائلوں کو حساس اداروں کے ذریعے ریکارڈ رکھ کر سیاست دانوں کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوششیں بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ایسے حالات میں افواجِ پاکستان کے ترجمان کی جانب سے مارشل لا نہ لگانے کی یقین دہانی پر سیاسی تجزیہ کار مختلف آر کا اظہار کر رہے ہیں۔سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل(ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے بھی 75 برس کے تجربے کے بعد سوچا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں، اگرچہ بہت وقت کے بعد ایسا سوچا گیا لیکن یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔
عالمی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ سے فوج پر تنقید بھی کی جارہی ہے اور بعض افراد سمجھتے ہیں کہ فوج کو اس عمل میں شامل رہنا چاہیے لیکن میرے خیال میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس پر فوج خود سے عمل کرنا چاہتی ہے۔افواجِ پاکستان کے ترجمان نے جمعرات کو اپنی تفصیلی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ عوام اور سیاست دانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دْور رکھیں۔افواجِ پاکستان کے کاروبار سے متعلق کتاب ’ملٹری انکارپوریٹڈ‘ کی مصنفہ عائشہ صدیقہ فوج کی جانب سے سیاست سے دْور رہنے کی یقین دہانی پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔عالمی نیوزایجنسیسے گفتگو کرتے ہوئے اْن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ فوج غیرسیاسی ہوگئی ہے، فوج بدستور سیاست میں ہے باوجود اس کے انہوں نے اس عمل سے الگ ہونے کے واضح اعلانات کیے ہیں۔
عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ’فوج خود بھی سیاست میں ہے اور لوگ انہیں اس سے باہر نکلنے بھی نہیں دے رہے۔ ہمارے صحافی بھی ان سے پریس کانفرنسوں میں آپریشنل تیاریوں پر پوچھنے کے بجائے صرف سیاسی سوالات پوچھتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں عمران خان بھی انہیں ہی بلاتے ہیں اور معاشرے میں سب لوگ انہیں سیاست میں ہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘عائشہ صدیقہ نے کہا کہ اس تمام عمل میں تبدیلی آسان نہیں ہے، صرف پاکستانی فوج کا کہنا کافی نہیں ہم ان پر اعتماد کیسے کریں کہ وہ واقعی سیاست سے دور ہوگئے ہیں۔
سیاست دان فوج کی طرف دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں؟بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج اگر سیاست سے دْور ہونا بھی چاہتی ہے تو پھر بھی کچھ سیاست دان نہیں چاہتے کہ فوج غیر سیاسی ہو۔ماہرین کے مطابق حال ہی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج سے ہی مدد طلب کی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS