ہماری معاشرتی زندگی اور نوجوان نسل کی سوچ: قیصر محمود عراقی

0

قیصر محمود عراقی
گردشِ زندگی کی کچھ ساعتیں انسان کو کبھی کبھی یا تو اکثر تبدیل کردیتی ہیں یا پھر کچھ ایسا دھنک چھوڑجاتی ہیں کہ وہ عمر بھر کیلئے انسان کو اس ضمن میں ایک طرف سے دوسری طرف ڈھکیلتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں نوجوان ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، نوجوان معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں جو اس معاشرے کی ترقی یا پستی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
میرا آج کا موضوع ہے ہماری معاشرتی زندگی اور نوجوان نسل کی سوچ کیلئے ایک پیغام ہے، ہوسکتا ہے کہ شاید کسی نوجوان کو یہ تحریر ناگوار گذرے مگر اس امر کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو شاید وقت کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ اپنی ذات کے بارے میں برا کہنا کسی کو اچھا نہیں لگتا مگر سچ کیلئے کبھی کبھی خود کا احتساب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ گذشتہ کچھ دہائیوں سے جہاں پوری دنیا بدل رہی ہے، وہاں ہم بھی بدلے اور ہماری سوچ بھی بدلی، وقت کے ساتھ تبدیلی اچھی لگتی ہے مگر شاید ہم کچھ زیادہ ہی بدل گئے ہیں، بالخصوص ہمارے نوجوان اس میدان میں سب سے آگے ہیں ، جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں اتنا عادی بنادیا ہے کہ اس کے بنا رہنا نا ممکن سا لگتا ہے۔ جدید موبائل فون ، لیپ ٹاپ ہماری روز مرہ زندگی کا بہت اہم حصہ بن گئے ہیںاور اس کے بنا شاید آج کے نوجوان کی زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔ ہر طرف جدید ٹیکنالوجی کی بھرمار ہے،
جسے دیکھیں وہ نت نئی چیزوں کا دیوانہ بنا پھرتا ہے، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر کے بنا تو شاید ہم جی ہی نہیں سکتے، ہمارا کھانا پینا بھی یہی ہے اور اوڑھنا بچھونا بھی ، یہی ہماری نوجوان نسل سے اگر کہا جائے کہ اس کو کم استعمال کیا کریں تو جواب ملتا ہے کہ کیوں؟ ہم کوئی بیک ورڈہیں یا ہم دنیا کی دوڑ سے پیچھے رہ جائیں، ہم وقت اور حالات کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اس لئے عجیب لگتا ہے، کیا ان چیزوں کے بنا ترقی نہیں کی جاسکتی، کیا ان کے بنا حالات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، ذرا سوچیں کہ جب سے ان چیزوں کا استعمال زیادہ ہوا ہے اس کے بعد سے ہم نے یا ہماری قوم نے کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں؟ ہم ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ دنیا ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے نکل گئی ہے اور ہمیں بھی دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو عجیب لگتی ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم اوروں کے ساتھ چلنے کیلئے اپنی چال ہی بھول گئے ہیں، مجھے کوئی نوجوان بتائے گا کہ آج علامہ اقبال ؔجیسا شاعر کیوں نہیں پیدا ہوا ؟ آج ارسطوں جیسا دماغ کیوں نہیں ؟ آج منٹو ، شکسپیئر اور ملٹن جیسے نامور لوگ کیوں نہیں بن رہے ہیں؟تو ہے کوئی ان کے پاس جواب ؟ بات یہ نہیں کہ آج اللہ تبارک وتعالیٰ نے لائق لوگ پیدا کرنے بند کردیئے ہیں بلکہ آج سوچ فیس بک اور واٹس ایپ سے آگے جاتی ہی نہیں، ہمارا نوجوان یہ کہتا ہے کہ اگر وہ آج کے جدید دور کے مطابق زندگی نہ گزارے تو شرمندگی ہوتی ہے، دنیا طعنے دیتی ہے کہ پرانے زمانے میں جی رہے ہو۔ میں اپنے قوم کے نوجوانوں سے یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ایسا نوجوان نہیں جو دنیا کو ٹیکنالوجی میں ، طب میں ، سائنس میں ایسی ایجاد دے سکے کہ ہماری قوم کا ہر شخص فخر کے ساتھ سر اٹھا کر جی سکے اس وقت ہماری غیرت کہاں جاتی ہے جب ہم آخری پوزیشن لے کر واپس آتے ہیں، اس وقت ہم کون سے زمانے میں جی رہے ہوتے ہیں ، ہم نے کیا سیکھا ، فیس بک سے کیا سیکھا ، انٹر نیٹ یا ٹیکنالوجی سے کیا سیکھا ، عالم تو یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے ہمارے ایک ہاتھ میں موبائل یا لیپ ٹاپ ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں نوالہ، بڑوں سے بات کرتے ہوئے گردن ہل رہی ہوتی ہے اور نظر موبائل پر ، مجھے تو ڈر ہے کہ کل خدا نخواستہ کہیں ہم نماز پڑھتے ہوئے بھی موبائل سامنے نہ رکھ لیں اور شاید یہ کہیں کہ اس کے بنا نماز نہیں ہوگی ۔ کیا سکھایا اس فیس بک نے اس کے ذریعہ ہمیں بے حیائی ، بے شرمی اور بداخلاقی کے علاوہ کیا سیکھا ہے ۔ ہمیں نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ نہیں آتا ، کچھ لکھنے کا ڈھنگ نہیں ، ہمیں تو بس مذاق مذاق میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا آتا ہے اور آتا ہے کیا بلکہ یہی ہمارا نصب العین بن گیا ہے، اوپر سے رہی سہی کسر ہمارے ٹی وی چینل نے نکال دی۔ ہر وقت غیر سنجیدہ ، ہنسی مذاق اور بے ہودہ پروگرام ، بے مقصد ہنسنا اور ہنسانا ہمارا شیوا بن گیا ہے، پڑھے لکھے اور شعور رکھنے والے لوگ اسکرین پر آکر صرف فضول باتیں کریں گے اور عورتوں کی تعریفوں کے پل باندھیں گے۔ نصف لباس پہن کر میڈیا کی زینت بننا ہماری عورتوں کیلئے باعث فخر ہوگیا ہے،اور اس پر ان کی سوخی کے کیا کہئے کہ پھولے نہیں سماتی ہیں۔
آخر کہاں گیا وہ کردار ، کہاں گئی وہ غیرت اور کہاں گیا وہ رواج جو ہمیں عزت اور غیرت کا درس دیتا تھا ، ہم کیوں نہیں بدل رہے ہیں، ہمیں ہماری تعلیم کیا دے رہی ہے ،کہیں یہ بھی تو میڈیا کے زیرِ اثر نہیں ، ہم کو سوچنا ہوگا ، ہم نے خود کو اور زندگی کو ایک مذاق بنا لیا ہے، حالت تو یہ ہے کہ ایک طرف اگر ملک جل رہا ہوگا تو وہاں کھڑے نوجوان سیلفی یا مووی بنانے میں مشغول ہوںگے، اگر کوئی حادچہ ہوجائے تو اس کی مدد کے بجائے ہم کھڑے ہوکر فیس بک پر وہ منظر لوڈ کررہے ہوتے ہیں، یقین مانئے ہمارے نوجوان اتنے بے حس ہوتے جارہے ہیں کہ کسی کا نمازِ جنازہ تک پڑھتے ہوئے ہنس رہے ہوتے ہیں، کوئی اچھی بات بتائی جارہی ہو تو ہم ہنس رہے ہوتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اذان کے دوران بھی ہنس رہے ہوتے ہیں ۔ کیا اسی لئے ہم دنیا میں آئے تھے کہ دوسروں کا مذاق اڑا سکیں اور خود ایک مذاق بن سکیں۔ گھنٹو ں ہم اپنی تصویریں بنانے اور انہیں اپ لوڈ کرنے میں صرف کردیتے ہیں، ہر گھنٹے بعد نئی تصویر بناکر لوڈ کرتے ہیں اور پھر کافی وقت گذار دیتے ہیں کہ کوئی منٹ آئے کہ میں کیسا لگ رہا ہوں ، پھر اگلے گھنٹے میں نئی تصویر ، نیا پوز ، نیا ڈرامہ ،ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے اور دوسری طرف ہم اس سے نکلنے کے لئے کیا کررہے ہیں ۔ باعث شرم ہے کہ بات ہے کہ ہماری پوری قوم کیلئے ہم نے اپنے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے، ہماری تہذیب وثقافت کیا تھی اور ہم کیا ہیں، تعلیم اور جدت کی آڑ میں ہم نے خود کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ شاید قوم کی آنے والی نسل ان لوگوں کی غلامی کرے گی جن کا نام لینے سے ہمیں غصہ آتاہے۔
قارئین محترم ! ہمارے دانشور اور قلمکار بھی کچھ حد تک اس کے ذمہ دار ہیں وہ لکھتے تو بہت اچھا ہیں، مگر کیوں ان کی تحریروں میں اتنی طاقت نہیں کہ ہماری نوجوان نسل کو اپنے اصل راستے پر لایا جاسکے ۔ بہر حال میں اپنے نوجوانوں سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ پستی سے نکلنے کیلئے خود کو بدلیں، اپنی پہچان ، اپنا مذہب ، اپنی روایت ، اپنی ثقافت کو سمجھیں، آپ کا غرور آپ کا فخر اس جھوٹی شان وشوکت میں نہیں ، اس غلط راستے پر نہیں بلکہ ان اقدار میں ہے جس کے رکھوالے آپ ہیں ، جس تہذیب کے علمبردار آپ ہیں۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS