اپوزیشن کا اتحاد ہنوز دیوانے کا خواب

0

پارلیمنٹ کا رواں بجٹ اجلاس جس ہنگامہ آرائی اورشورشرابہ سے گزر رہا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمراں این ڈی اے اتحاد یعنی بی جے پی کی قیادت والا محاذ اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں 2024کے عام انتخابات کے لئے تیاری شروع کرچکی ہیں۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا بھی اسی تیاری کا حصہ تھی۔ کانگریس کو لگ رہا تھا کہ شاید راہل گاندھی کی یاترا جو ماحول ملک میں پیدا کر رہی ہے اس سے کانگریس تنظیمی اور عوامی سطح پر مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگی اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ مگر بی جے پی کے خلاف بننے والے محاذ کے لئے صرف ان معیارات پر پورا اترنا کافی نہیں ہے۔ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے جس کی مختلف سیاسی، تہذیبی، لسانی اور دیگر ضروریات ہیں۔ مگر کوئی بھی بی جے پی کے خلاف بننے والا محاذ صرف بی جے پی مخالفت کے ایجنڈے پر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ بات صحیح ہے کہ راہل گاندھی نے اپنی قائدانہ صلاحیت کو منوایا ہے اور وہ کافی حد تک عوامی مسائل کو اٹھانے میں موثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مگرابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ اپوزیشن ایک ایک متحدہ محا ذ تیار ہوگا یا نہیں ہوگا اس پر بھی اختلاف ہے۔ ملک میں اس سے قبل جتنے بھی غیربی جے پی حکومتیں بنی ہیں ان سب کا مرکزی نقطہ نظر کانگریس اور کسی حد تک نہرو خاندان کی مخالفت رہا ہے۔ اگر ہم ایمرجنسی کے بعد کے عام انتخابات 1977 میں بننے والے محاذ کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ یہ محاذ کانگریس حکومت کی ایمرجنسی کے دوران کی گئی زیادتیوں اور اندرا گاندھی اور ان کے چہیتے بیٹے سنجے گاندھی کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف معرض وجود میں آیا تھا۔ بعدازاں 1989میں جومحاذ بنا تھا وہ کانگریس کو سائڈ لائن کرنے اوراس کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے قائم ہوا تھا۔ یہ صورت حال 1996اور 1998 میں بھی دیکھی گئی تھی۔
مذکورہ بالا تین عام انتخابات جوکہ بہت کم وقفے کے بعد کرانے پڑے تھے اور کانگریس کو اقتدار سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس پر کانگریس نے دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس کی مخالفت پر قائم ہونے والی کوئی بھی پارٹی اتحاد علاقائی یا قومی ملک کو ایک مستحکم حکومت نہیں دے سکتا ہے۔ بی جے پی نے جب سے عام انتخابات خاص طورپر لوک سبھا میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے شروع کی ہے وہ بھی کسی حد تک کانگریس کی مخالفت پر مبنی رہی ہے اور بی جے پی کا مقصد سیاسی طورپر کانگریس کو کمزور اور ممکن ہوسکے تو ختم کردینا ہے۔ بی جے پی کے کئی مخالف محاذ جوکہ کانگریس سے بھی متنفر ہیں اور اس کے ساتھ یکساں فاصلہ بنانے کے حامی ہیں۔ مگر کئی پارٹیاں اس بات کی حامی ہیں کہ کانگریس کو نظرانداز کرکے کوئی مستحکم سیاسی محاذ جوکہ بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط آواز بن کر کھڑا ہو ممکن نہیں ہے۔ اس میں این سی پی، شیوسینا ،آر جے ڈی وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بی جے پی کی بنیادی حکمت عملی اکثریت نوازی کی رہی ہے اور جمہوریت پسند ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انداز کی سیاست سے کئی مرحلوںپر جمہوری نظام میں کمزوری پیدا ہوئی ہے، سول سوسائٹی جوکہ عوام میں اور عوام کے لئے کام کرتی تھی وہ بھی کمزورہوئی ہے۔ بی جے پی نے جس انداز سے ملک کے تمام علاقوں میں مضبوطی حاصل کی ہے اس سے علاقائی سطح پر یہ تاثرپیداہورہا ہے کہ بی جے پی کی کھلم کھلا مخالفت کرکے وہ اکثریتی طبقات کا ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ یعنی بی جے پی کافی حد تک اکثریتی جذبات اوراحساسات کی ترجمان بن کر پیش کی جاتی رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے انتخابی اور سیاسی ماحول میں کیا ایک مضبوط بی جے پی مخالف محاذ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے دوران تو علاقائی پارٹیاں کافی حد تک بی جے پی کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتی ہیں مگر لوک سبھا کے انتخابات میں صورت حال قدرے مختلف رہتی ہے۔ 2024کے انتخابات سے قبل کسی اتحاد کے امکانات کو تلاش کرنے والے حلقوںکا کہنا ہے کہ اپوزیشن میں آپس میںاختلافات اس شدت کے ہیں کہ ان کو ختم کرنا یا کم کرنا کاردارد ہے۔ سیاسی پارٹیوںاورلیڈروں میں اعتماد کی کمی ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں انتخابات سے قبل اپنے اپنے ووٹ بینک کو کسی ایک محاذ کے ساتھ چلنے پر یا ووٹ ڈالنے کے لئے راضی کرلیںگی یہ بھی مشکل نظرآتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان پارٹیوںاورپارٹی کے لیڈروں میں مرکز کے کنٹرول والی ایجنسیوں کا ڈر بھی ستاتا رہتا ہے۔ مجموعی طورپر بی جے پی کے خلاف بننے والے محاذوں میں اگرہم تفریق کرنا چاہیں تو ہم اس کو دوخانوںمیں تقسیم کرسکتے ہیں اورکچھ پارٹیاں ایسی ہیں جوکہ کانگریس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ کانگریس کو ساتھ لے کر قومی ریاستی یا علاقائی سطح پر کوئی محاذ بن جائے۔ جبکہ دوسری جانب ترنمول کانگریس، بھارت راشٹریہ اسمرتی (بی آر ایس)، وائی آر ایس اور عام آدمی پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں کانگریس کے ساتھ جانے کوقطعاً تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترنمول کانگریس کانگریس سے ٹوٹ کر بننے والی پارٹی ہے جبکہ وائی آر ایس بھی آندھراپردیش میں کانگریس پارٹی سے ٹوٹ کر بننے والی سیاسی جماعت ہے۔ جہاں تک عام آدمی پارٹی کا تعلق ہے وہ نئی سیاسی قیادت کے ابھار سے بننے والی پارٹی ہے۔ یہ پارٹی اناتحریک کے بطن وجودمیں آئی اور اس کا بنیادی نظریہ کانگریس کی مخالفت ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پنجاب اور دہلی جہاں پر عام آدمی پارٹی کا اقتدار ہے وہاں کانگریس کو بے دخل کرکے یہ پارٹی کھڑی ہوئی ہے یا عام آدمی پارٹی کانگریس کو ہراکر اقتدار میں آئی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایک سیاسی پارٹی بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کانگریس جتنی کمزور ہوئی ہے اس کا اندازہ سبھی کو ہے۔ کانگریس اکیلے بی جے پی کو کسی ریاست میں یا قومی سطح پر بھی ہراکر برسراقتدارنہیں آسکتی۔ اگرچہ ہماچل پردیش اس سے مستثنیٰ ہے۔ جہاں اس نے بی جے پی کو ہراکر حکومت بنائی ہے۔ لہٰذا اس وقت سب سے بڑا اور اہم کام بی جے پی کے مقابلے میں ایک مضبوط محاذ کھڑا کرنا ہے۔ پچھلے دنوں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا وڈارا نے کچھ ایسے اشارے دیے تھے جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی اس حق میں نہیں ہے کہ وہ فوری طورپر بی جے پی کے خلاف بننے والے کسی بھی محاذ کی قیادت کے لئے دعویداری کرے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ جنوبی ہندوستان کی خاص طورپر تمل ناڈویا کسی اورریاست کی علاقائی پارٹی کے حق میں کنارہ کرلے۔ ممتابنرجی جس شدت کے ساتھ کانگریس کی مخالفت کرتی ہیں اس سے نہیں لگتا کہ ممتا بنرجی فی الحال کسی کانگریس کی حمایت والے یا کانگریس کی شمولیت والے محاذ میں شامل ہوجائیںگے۔ یہ اندازے انتخابات سے قبل کے ہیں۔ لیکن ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جہاں مختلف سیاسی رجحانات، مفادات، سیاسی حکمت عملی طے کرتے ہیں وہاں انتخابات کے بعد کیا سیاسی گٹھ جوڑ بنے گا اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پچھلے دنوں کئی سیاسی تجربے کئے گئے۔ ایک تجربہ اترپردیش میں ہوا جہاں سماجوادی پارٹی اور کانگریس متحد ہوئیں۔ دونوں نے ساتھ الیکشن لڑا لیکن اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوا۔ اسی طرح شمال مشرقی ریاستوں میں، مغربی بنگال میں کمیونسٹ اورکانگریس قریب آئے۔ مگر یہ تجربہ بھی ناکام رہا۔
2014 کے بعد سونیا گاندھی، ٹی ایم سی کی سربراہ ممتابنرجی اور حال ہی میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر رائو اوراپوزیشن پارٹیوں کومتحد کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ اس بابت حال ہی میں ایک اور نام تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کا سامنے آیا ہے۔ ان کوششوں میں کئی ریاستوں کے غیربی جے پی وزرائے اعلیٰ اور سابق وزرائے اعلیٰ سرگرم ہوچکے ہیں۔ ہم تلنگانہ اور بہار کے وزرائے اعلیٰ میں نوک جھونک کے مناظر دیکھ چکے ہیں۔ کچھ لیڈر اورپارٹی سربراہان کو دونوں مکاتب فکر کی سیاسی محاذ یا مجوزہ محاذوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
بہرحال لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں جس انداز سے سیاسی جماعتیں اتحاد کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس سے امید کی کرن دکھائی دی ہے۔ مگر اس میں ترنمول کانگریس کا شامل نہیں ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مغربی بنگال کی ایک بڑی سیاسی جماعت جوکہ لوک سبھا میں اچھی پوزیشن رکھتی ہے اس کا اس محاذآرائی میں علیحدہ چلنے کی حکمت عملی سب کو گراں گزر رہی ہے۔ خاص طورپر ایسے حالات میں جب مہاراشٹر جیسی اہم ریاست میں بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط محاذ کھڑا ہوگیا ہے اور شیوسینا اورکانگریس جیسی پارٹیوں میں سیاسی حالات کے تحت اپنے نظریاتی اختلافات، جوکہ بہت گہرے ہیں نظرانداز کردیا ہے اور وہاں شیوسینا اپنے نظریاتی طورپرقریب اورہم خیال سیاسی جماعت اور پرانے حلیف کے خلاف پوری شدت کے ساتھ برسرپیکار ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS