جمہوریت اور جمہوری حقوق کا مسئلہ

0

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
جمہوریت ایک خوبصورت عنوان ہے، جمہوریت کا حقیقی تصور ایک مستحکم نظام اور پرامن فضا کو ہموار کرتا ہے، سب کو
یکساں مواقع فراہم کرتا ہے، آزادیٔ فکر و نظر اور انتخاب وارادے کی آزادی دیتا ہے، صحیح معنی میں جمہوریت وہی ہے جو
حاکم ومحکوم کے فرق کو مٹادیتی ہے اور حقوق انسانی میں سب کو برابری کا حق دیتی ہے۔ مغرب میں جمہوریت کا تصور
صدیوں میں پلا بڑھا اور قسطوں میں جوان ہوا، جبکہ اسلام نے ابتدا میں ہی جمہوری تصور کو مستحکم کیا۔ انسانوں کو انسانوں
کی غلامی سے نجات دلائی اور بنیادی حقوق کا تعین کیا، اظہار رائے کی آزادی دی، حفاظت کا حق دیا، رنگ ونسل کی تفریق
ختم کی، عدل کا سبق دیا، انسانی مساوات کی بنیاد ڈالی، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق دیا۔
مغرب کا تصور جمہوریت جو صدیوں میں یہاں تک پہنچا وہ پرشکوہ نعروں اور بلند بانگ دعوؤں پر قائم ہے۔ آزادیٔ اظہار
رائے، گفتگو کی آزادی، صحافت کی آزادی، انسانی حقوق، مختلف اقوام وطبقات اور جنسوں کے درمیان مساوات دنیا کے بیشتر
ممالک میں رائج جمہوریت کے بنیادی اصول قرار پائے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسی جمہوریت کا
تجربہ بڑا خطرناک بھی ثابت ہوا ہے، اسی کے پردہ میں استبداد نے بھی پاؤں پسارے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ نے بھی جنم لیا ہے۔
آزادی کے پہلے ایک طرف کانگریس کو اسمبلیوں میں پہنچنے کی بڑی عجلت تھی تو دوسری طرف کچھ لوگوں کو یہ فکر
لاحق تھی کہ اگر تعداد کی اکثریت کی بنا پر ہر طرح کے فیصلہ کا اصول ہندوستان میں اپنایا گیا تو مذہبی ولسانی اقلیتیں دم
توڑدیں گی، ان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا اور انھیں انصاف نہ مل سکے گا۔ جمہوریت کی تعریف اگرچہ اس طرح کی
جاتی ہے کہ گویا ہر فرد حکومت وحاکمیت میں شریک ہوتا ہے لیکن یہی جمہوریت کی کمزوری بھی ہے کہ عملاً یہ تصور
قابل عمل نہیں ہوسکتا،کیونکہ نہ قانون ہر فرد کی مرضی کے مطابق بن سکتے ہیں اور نہ حکومت ہر فرد کی خواہش کے
مطابق چلائی جاسکتی ہے، بلکہ عملاً جمہوریت میں اکثریت کی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے، اسی کو سامنے رکھ کر فیصلے
ہوتے ہیں اور اسی کی خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو طبقہ اکثریت میں ہوتا ہے وہ حاکم بن جاتا ہے
گویا ہر جگہ اور ہر موڑ پر حاکم ہی حاکم چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت میں عددی تناسب سب سے بڑی حقیقت ہے،
جہاں تین چوتھائی اور ایک چوتھائی کا تناسب ہو وہاں مساوی اختیارات و توازن برقرار رکھنا اور تصادم کے واقعات رونما ہونا
یقینی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ تصورات، نعروں اور زمینی حقیقت میں عدم موافقت کے سبب مسلسل کشمکش جاری رہی
ہے، لسانی، تہذیبی و مذہبی اقلیتوں کو دبانے اور ختم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ جب فاشزم جمہوریت کے لبادے میں
آتا ہے تو جمہوریت کا تصور ہی بدل جاتا ہے۔ غالب طبقہ کسی کو ملک بدری پر مجبور کرتا ہے، کہیں نسل کشی ہوتی ہے،
کہیں اجتماعی قتل عام ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی جمہوریت کا تصور کچھ ایسا بنادیا گیا ہے کہ اب یہاں نہ صرف انسانی آزادی اور انسانی حقوق میں
مساوات کے ہر پہلو کو کھلے عام روندا جارہا ہے، بلکہ اقلیتوں سے قطع نظر ملک کی سب سے بڑی کسان آبادی بھی جمہوری
حقوق کے لیے اسی طرح جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے جس طرح کبھی سی اے اے کے معاملہ میں ملک کی سب سے بڑی
اقلیت تحریک چلارہی تھی۔ بلکہ جو لوگ سرکار کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ UAPA جیسے قوانین کا استعمال ایک کارگر
ہتھیار کے طور پر کیا جاتا ہے، جس کا شکار اقلیت کے افراد، مظلوم اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہوئے۔ عموماً
دیکھا جاتا ہے کہ مقننہ اکثریت کی بنیاد پر اکثریت کی خوشی کے لیے فیصلے کرتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ زرعی قوانین میں
اکثریت واقلیت کا کھیل ختم کرکے پورے ملک کو مٹھی بھر لوگوں کا غلام بنانے کا کا م کیا گیا، کسانوں نے اچھی طرح یہ بات
سمجھ لی کہ زرعی قوانین ان کے لیے پروانۂ موت سے کم نہیں۔ ملک میں اگر جمہوریت کا چلن ہوتا تو تین ماہ سے چل رہے
کسانوں کے احتجاج پر حکومت کان دھرتی مگر کسانوں کے اتنے بڑے احتجاج پر حکومت کا رویہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے
کہ وہ اب سب کو ساتھ لے کر نہیں چل رہی ہے۔ عدلیہ کی حالت ہم بار بار دیکھ ہی چکے ہیں، اب اس کے فیصلوں پر سوالات
اٹھائے جارہے ہیں۔رہ گیا صحافت وجرنلزم کا حال تو اس کی جگہ ’’گودی میڈیا‘‘ کی اصطلاح کا چلن ہی اس بات کا
ثبوت ہے کہ اس کی آزادی سلب ہوچکی ہے۔ حکومت کا تازہ ترین اقدام بھی اس کی دلیل ہے جس میں اس نے ڈائریکٹر لیول اور
جوائنٹ سکریٹری کے تیس عہدوں پر براہ راست تقرری کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ ایس سی
ایس ٹی، او بی سی اس میں درخواست نہیں دے سکتے۔ آزادی اور مساوات کا حال یہ ہے کہ حکومت کی تنقید کرنے والے ملک
سے غداری کا مقدمہ جھیل رہے ہیں۔ حکومت سے سوال کرنے والے جیل میں ڈالے جارہے ہیں۔ سچائی دکھانے اور بتانے
والے ٹارچر کیے جارہے ہیں۔ جس طرح ڈکٹیٹر شپ میں ہر شہری پر امیر شہر کی مدح سرائی فرض ہے خواہ وہ ظلم کی
ساری حدیں کیوں نہ پار کر جائے، ٹھیک اسی طرح اس وقت وطن عزیز کی صورت حال ہے کہ اگر آپ حکومت کی کسی بھی
پالیسی کی تنقید کرتے ہیں تو ملک سے غداری کا الزام آپ کے لیے طے ہے۔ بڑھتی مہنگائی پر آپ حکومت کی تائید کریں تو یہ
دیش پریم ہے اور آپ نے بڑھتی قیمتوں پر احتجاج کیا تو دیش بھکتی پر سوالیہ نشان لگادیا جائے گا، یہ سب تو ہوہی رہا ہے
اس کے ساتھ ساتھ تہذیبی ولسانی بالادستی قائم کرنے کی ہر کوشش جاری ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں اس کا بھر پور خیال کیا
گیا ہے۔ رہ گئے فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی جھگڑے تو وہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ناسور ہیں اور اب تو اس میں
لنچنگ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ جمہوریت میں جن فکری بنیادوں یعنی جس روشن خیالی، جمہوریت، آزادی،
مساوات، انسانی حقوق، تکثیریت اور مذہبی روداری کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے عملاً ان کو برتا نہیں جاتا بلکہ پس پردہ آمریت،
مذہبی کشمکش، استعماری ذہنیت، نسل پرستی، اسلاموفوبیا اور اپنی مذہبی ولسانی بالادستی کو قائم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
بات اب دو دو چار کی طرح واضح ہوچکی ہے اس لیے اس کے تدارک کی خاطر سوچنا اور عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں حکومت کے انتخاب کا جو طریقہ رائج ہے اس سے ان کو بالادستی قائم کرنے میں مدد بھی
مل رہی ہے، بہت پہلے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر یہ طریقہ ہندوستان میں اختیار کیا گیا تو تین چوتھائی ووٹ ایک طرف
جائے گا اور ایک چوتھائی ایک طرف، جس کے سبب اختیارات کا تناسب وتوازن قائم نہ رہ سکے گا، یہ واقعہ ہے اگرچہ ملک
کے عوام نے اس پر عمل نہیں کیا لیکن بی جے پی اس فارمولے پر عمل کرانے میں کامیاب ہورہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے
کہ فی الوقت ملک میں دم توڑتی جمہوریت کی بقا کی فکر کی جائے اور ملک کے منصف مزاج شہریوں کو ساتھ لے کر ملک میں
یہ فضا بنائی جائے کہ ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں جمہوریت تبھی کامیاب ہوگی اور تبھی باقی رہ سکے گی جبکہ یہاں
بسنے والا ہر طبقہ دوسرے طبقات کے حقوق کا تحفظ کرے نہ کہ دوسرے کے حقوق سلب کرنے کی تاک میں لگ جائے اور
دن رات دوسروں کو چھیڑنے، ستانے اور ان کے حقوق چھیننے اور ڈنڈی مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS