کیا ہندوستان اب پولیس اسٹیٹ بنتا جا رہا ہے؟

0

عبدالحفیظ گاندھی
حکومت اور ملک میں فرق ہوتا ہے ، لہٰذا حکومت کے خلاف بولنا ملک کے خلاف بولنا نہیں ہے۔ حکومت کے کام کاج پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ حتیٰ کہ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کے خلاف بھی بولا اور دھرنا و مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مہاتما گاندھی نے انگریزوں کے بنائے گئے نمک قانون کے خلاف تحریک کی تھی۔ لہٰذا اگر آج کسان زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں تو اس میں کچھ بھی غیر جمہوری نہیں ہے۔ ملک کا آئین عوام کو اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل19کے تحت لوگوں اور میڈیا کو بولنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اسی حق میں مختلف رائے رکھنے کی آزادی بھی آتی ہے۔ مختلف رائے کا ہونا ایک صحت مند جمہوریت کی پہچان ہے۔نظریہ تنوع(diversity of views) کے بغیر کوئی بھی نظام جمہوری نہیں ہوسکتا۔
حکومتیں مکمل طور پر آئین کی پاسداری کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن مختلف رائے سے خوفزدہ ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کو جرم بھی قرار دیتی ہیں-کبھی غداری کے نام پر تو کبھی دفعہ144 کو توڑنے کے نام پر۔
حکومت سے سوال کرنا جرم بن گیا ہے۔ جو سوال پوچھتا ہے اسے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور تو اور جن کا سوال پوچھنا ہی کام تھا وہ بھی حکومت کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ میڈیا پر حکومت کا ایسا دباؤ ہے کہ اب میڈیا حکومت سے نہیں حزب اختلاف سے سوال کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر میڈیا پلیٹ فارم سرکاری بن چکے ہیں۔ آج کا مین اسٹریم میڈیا سرکاری پریس ریلیز تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ جو حکومت کا ایجنڈا ہوتا ہے یہ گودی میڈیا پروپیگنڈہ ٹول بن کر اس ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے۔ جو کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس سرکاری دباؤ سے بچے ہوئے ہیں اور حکومت سے سوال پوچھتے رہتے ہیں، حکومت ان کو ای ڈی اور پولیس کے ذریعہ پریشان کرتی رہتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک ویب نیوز پورٹل نیوز کلک کے مالک کے گھر 100سے زیادہ گھنٹے کی ای ڈی کی ریڈ چلی۔ یہ نیوز پورٹل حکومت کے کام کاج کو تنقید کا نشانہ بنا تا رہا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ای ڈی کی اس سے لمبی ریڈ نہیں چلی ہے۔ یہ بات واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ حکومت سے متفق نہیں ہیں تو پھر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ آپ کو ہر طرح سے پریشان کیا جائے گا۔ اتر پردیش میں یوگی حکومت سے سوال پوچھنے اور مختلف اسکیموں میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے متعدد صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے دور میں میڈیا کے سامنے صرف دو ہی متبادل ہیں-یا تو گودی میڈیا بن جائیے یا ایف آئی آر کا سامنا کیجیے۔
آج کے نئے ہندوستان میں آئینی اداروں کو ہم کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ان آئینی اداروں کا کام حکومت پر نظر رکھنے کا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کہیں حکومت بے لگام تو نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن یہ آئینی نظام آج تار تار ہوگیا ہے۔ حکومت کو جوابدہ بنانے والے سارے میکانزم میں زنگ سا لگ گیا ہے۔ایسا دور 1975کی ایمرجنسی کے وقت بھی دیکھا گیا تھا۔ تو کیا آج ہم غیر علانیہ ایمرجنسی میں جی رہے ہیں؟
حکومت کی آمریت کا یہ عالم ہے کہ آئے دن لوگوں پر غداری جیسے الزام عائد کرکے جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔ سابقہ حکومتوں میں بھی دفعہ 124-A آئی پی سی کا غلط استعمال ہوا ہے، لیکن2014سے اس چیز میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ مظاہرین کے خلاف سیکشن 124-A آئی پی سی اور یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کا بیجا استعمال کیا گیا۔ ان قوانین میں ضمانت ملنا مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور پر جن پر یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی جاتی ہے، ان لوگوں کو برسہا برس ضمانت نہیں ملتی۔ حکومت کے اشارے پر پولیس کئی نوجوانوں کو صرف مظاہرہ کرنے کی وجہ سے یواے پی اے جیسے قوانین میں پھنسا چکی ہے۔ حکومت اور پولیس یہ بھول جاتے ہیں کہ پر امن مظاہرہ کرنا لوگوں کا آئینی حق ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم پولیس اسٹیٹ میں جی رہے ہیں جہاں ہماری ہر ایکٹیوٹی پر حکومت کی نظر ہے۔ یہ ایک surveillance state کی پہچان ہے۔
ابھی حال ہی میں دشا روی کو ٹول کٹ معاملہ میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری میں بہت سے قانونی پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا۔ پولیس نے دشاروی کو بنگلورو سے دہلی لانے کے لیے ٹرانزٹ ریمانڈ کے عمل پر کارروائی نہیں کی۔ دہلی کورٹ میں دشا روی کو پیش کرتے وقت اس کا وکیل بھی موجود نہیں تھا۔ ان ساری باتوں پر غور کیے بغیر ہی ڈیوٹی مجسٹریٹ نے دشا روی کو5دن کی پولیس تحویل میں بھیج دیا۔ اس جلد بازی سے دشا روی کے حق میں جو قانونی دفعات تھیں، ان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہprima facieدشاروی پر عائد کیے گئے الزامات بنتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ بات بہت آسانی سے دیکھی جاسکتی تھی کہ ٹول کٹ میں ایسا کیا ہے جو قانونی طور پر غلط تھا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ٹول کٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کے تحت دفعہ124-Aیعنی غداری جیسے کسی جرم کا ارتکاب ہوتا ہو۔ ٹول کٹ میں تشدد کو بھڑکانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1962 میں کیدارناتھ سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہار کے کیس میں سپریم کورٹ نے غداری کے جرم کا دائرہ بہت محدود کردیا تھا۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ غداری کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نعروں اور تقریروںکی وجہ سے بعد میں تشدد ہوا ہو۔ تقریر سے قطع نظر اگر تشدد نہیں ہوا تو یہ غداری کا جرم نہیں بنتا ہے۔ ٹول کٹ میں تشدد کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا دشا روی پر غداری جیسا کوئی کیس نہیں بنتا۔ لوگ ٹول کٹ کا استعمال ایڈووکیسی کے لیے کرتے ہیں۔ ٹول کٹ کا استعمال ہر تحریک میں کیا جاتا ہے۔کسان تحریک میں بھی اگر اس کا استعمال ہوا تو یہ غداری کے زمرے میں کیسے آگیا؟
کتنی عجیب بات ہے کہ جس غداری کے قانون کو انگریز تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے لائے تھے، اسی قانون کا استعمال آج کی حکومتیں جمہوری تحریکوں کو کچلنے کے لیے کررہی ہیں۔
کسان تحریک کو حکومت نے بدنام کرنے کی پوری کوشش کی۔ تحریک چلانے والوں پر جھوٹے مقدمے لگائے گئے۔ این آئی اے نے درجنوں کسان لیڈروں کے خلاف نوٹس جاری کیے۔ یہ سب کسان لیڈروں کو ڈرانے کے لیے کیا گیا۔
حکومت کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ملک میں تحریکیں چلتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوں گی۔ حکومت سے سوالات بھی پوچھے جائیں گے۔ حکومتوں کو ان تحریکوں سے ڈرنے کے بجائے جمہوری انداز میں جواب دینا چاہیے۔ لیکن آج کی حکومتیں اس کے برعکس کر رہی ہیں۔ وہ ہرممکن کوشش کررہی ہیں جس سے جمہوریت کا گلا گھونٹا جاسکے۔ بہار اور اتراکھنڈ کی حکومتوں نے ایسے احکامات دیے ہیں جس سے اظہار رائے کے حق پر پابندی عائد ہوتی ہے۔
بہار حکومت کے مطابق سوشل میڈیا پر وزراء اور بابوؤں کے خلاف لکھنے پرپاسپورٹ ویری فکیشن، سرکاری اسکیموں میں فوائد، سرکاری معاہدوں اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اتراکھنڈ کی پولیس کے مطابق مظاہرہ کرنے پر کیس ہوا تو پاسپورٹ ویری فکیشن رپورٹ میں پریشانی ہوگی۔ شاید پولیس کو معلوم نہیں ہے کہ پاسپورٹ ایکٹ میں ایسا کوئی التزام نہیں ہے جس میں مظاہرہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کو پاسپورٹ ویری فکیشن رپورٹ سے محروم کیا جائے۔عدالت عظمیٰ کا ایک فیصلہ ہے جس میں عدالت نے کہا کہ کریمنل کیس ہونے کے باوجود پاسپورٹ بن سکتا ہے۔ اگر کسی عدالت نے کسی کو پاسپورٹ سے صاف انکار کردیا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن اگر کسی کورٹ کا حکم نہیں ہے تو کریمنل کیس ہونے کے بعد بھی کسی کو پاسپورٹ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کبھی سوچتا ہوں کہ ہم ایک ملک کی حیثیت سے کہاں جارہے ہیں۔ جو راستہ آج کی حکومتوں نے اپنایا ہے وہ ہمیں پولیس اسٹیٹ کی طرف لے جارہا ہے، جہاں سوالات پر پابندی ہوگی۔ انتخابات برائے نام رہ جائیں گے۔ آئین صرف تقاریر تک رہ جائے گا۔
اگر ہم پولیس اسٹیٹ بننے سے بچنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو بیدار ہونا پڑے گا۔ مذہب اور ذات پات کی سیاست سے باہر آنا ہوگا۔ معاشرتی اور معاشی ایشوز پر بات کرنی ہوگی۔ منتخب نمائندوں کو جوابدہ بنانا ہوگا۔ آئینی اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ آئینی اور سرکاری اداروں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا سے بھی سوال کرنے ہوں گے کہ وہ حکومتی چنگل سے باہر نکلے اور قومی مفاد اور عوامی مفاد میں حکومتوں سے سوالات پوچھیں۔
ہندوستان کا آئین اچھا ہے ، بس اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اچھے لوگوں کی ضرورت ہے۔ لیکن آئین کتنا بھی اچھا ہو لیکن اس کو چلانے والے اگرٹھیک نہیں ہیں تو اچھا آئین بھی فیل ہوجاتا ہے۔ ہٹلر بھی آئین کی قسمیں کھاتا تھا لیکن تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جرمنی میں کیا ہوا۔ ہمیں جرمنی کی تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ ایک صحت مند معاشرے کے لیے صحت مند جمہوریت کی ضرورت ہے اور صحت مند جمہوریت جوابدہی سے ہی آئے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS