بے قابوپٹرول ڈیزل

0

ہوش رباگرانی اور کمر توڑ مہنگائی کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی روز انہ بنیادوں پر بڑھ رہی قیمت نے عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ ہرآنے والا دن ایک نئے عذاب کا پیغام لے کر آر ہا ہے۔ لگاتار12ویں دن بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں پہلی بار پٹرول کی قیمت فی لیٹر100روپے اور اس سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ ملک کے زیادہ ترشہروں میں پریمیم پٹرول100روپے فی لیٹر سے زیادہ اور نارمل پٹرول 100روپے فی لیٹر کی قیمت پر بک رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس مہینہ دو ہفتہ کے اندر ہی رسوئی گیس کی قیمت میں بھی ظالمانہ اضافہ کیا گیا ہے۔ گھریلو استعمال کے سلنڈر کی قیمت میں75روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ معاشی حملوں کی اس نشتر زنی سے غریب عوام بلبلارہے ہیں اوران میں سخت غم و غصہ اور اشتعال ہے لیکن حکومت اس کا حل نکالنے کے بجائے موجودہ مہنگائی اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کیلئے سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے۔اپنا دامن بچانے کیلئے طرح طرح کی بودی دلیلیں دی جارہی ہیں۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مسلسل بڑھ رہی قیمتوں کی ذمہ داری سے یہ موجودہ حکومت اپنا دامن نہیں بچاسکتی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر زندگی کے ہرشعبہ پر پڑتا ہے بالخصوص روزمرہ استعمال ہونے والے سامان فوری اثر کی زد میں آتے ہیں۔ مال ڈھلائی اور ٹرانسپورٹ کا خرچ بڑھ جانے کی وجہ سے اجناس اور اشیائے خوردونوش کی چیزیں عوام کی رسائی سے دور ہوتی جاتی ہیں۔مجموعی طور پر عام لوگوںکی زندگی پر اس کا چوطرفہ اثر پڑتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ دیکھاجاتارہا تھا کہ بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت بڑھنے پر ہی گھریلو بازار میں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں بڑھتی تھیں۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ جب عالمی بازار میں قیمتیں کافی کم رہتی ہیں تب بھی ہمارے یہاں قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت بھی عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اس بار کو کم کرنے کیلئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ مئی 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی پہلی حکومت بنی تھی تو اس وقت عالمی بازار میں کچے تیل کی قیمت 109ڈالر فی بیرل تھی، اس وقت حکومت نے گھریلو بازار میں پٹرو ل ڈیزل کی قیمت کم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ ایک نیا محصول لگاکر اس قیمت کو برقرار رکھے گی اور اس مد میں اکٹھی ہونے والی رقم سے آئل پول تیار کرے گی جو بحران کے وقت کام آئے گا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس محصول میں تو ضرور اضافہ ہوتاگیامگر نہ آئل پول بنا نہ عالمی بازار کے مطابق گھریلو بازار میں قیمتوں کو متوازن کیا گیا۔ ہندوستان پٹرولیم مصنوعات پر اپنے ہی عوام سے سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ ہندوستان میں پٹرول کی کل قیمت میں 69% ٹیکس اور محصولات شامل ہوتی ہیں جب کہ دوسرے ملکوں میں یہ شرح کافی کم ہے۔ کناڈا میں یہ شرح 33% اور امریکہ جیسے سرمایہ دارانہ ملک 19% ہے۔ طرفہ تماشایہ بھی ہے کہ ہندوستان جن ملکوں میں اپنے یہاں سے یہ مصنوعات بھیجتا ہے، وہاں یہ کہیں کم قیمت پر دستیاب ہورہی ہیں۔پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان، سری لنکا میں پٹر ول ڈیزل کی قیمت کافی کم ہے حتیٰ کہ پاکستان میں فی لیٹرپٹرول ہندوستان سے نصف قیمت پر دستیاب ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب صنعتوں پر بحران آیاہوا ہے، چھوٹی اور درمیانہ صنعتیں ابتلا سے گزررہی ہیں، چھوٹے موٹے کاروبار کورونا کی نذر ہوچکے ہیں، لاکھوں افراد بے روزگار اور لاکھوں کم اجرت پر کام کرنے کیلئے مجبور ہیں، مہنگائی سوا نیزے پر ہے۔ غریب، محنت کش، مزدور اپنی سانس کی ڈور قائم رکھنے کیلئے اذیت ناک عذاب سے گزررہاہے، تیل کی بڑھتی قیمتیں اس کے زخموں پرنمک پاشی ہی کہی جائیں گی۔عوام یہ سوچنے پر مجبورہورہے ہیں کہ آخر حکومت مہنگائی کتنی بڑھانا چاہتی ہے، پٹرول ڈیزل کے دام اور کہاں تک بڑھیں گے۔لیکن حکومت اس معاملہ میں حیلہ اور بہانہ سے کام لے رہی ہے جو عوام کو مزید مشتعل کررہاہے۔ بڑھتی مہنگائی خاص طور سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ایک حساس معاملہ ہے اور اسے اسی حساسیت اور درد مندی کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ حیلہ سازی اور سابقہ حکومتوں کو موردالزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے دامن نہیں بچایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ عام آدمی کو اس سے نجات دلانے کی راہ نکالی جائے اور بڑھتی قیمتوں کا بوجھ کم کیاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS