لومڑی کو چوزوں کے دربے کی منتظمہ بنانے کی کوشش

0

جی آر گوپی ناتھ
(مترجم: محمد صغیر حسین)

سرگفتگو ایک اعتراف ضروری ہے۔ کیا میں آرزو کرسکتا ہوں کہ میرے پاس ایک بینک ہو اور میں بینک کی تجوری میں رکھی رقم سے ایک ایئرلائن شروع کرسکوں؟ کیا میں یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ جب میری ایئرلائن قلاش ہوجائے گی تو میں بینک میں رکھی رقم کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا؟ کیا آپ اس پر شک نہیں کریں گے۔ اور کیا ضرورت پڑنے پر خود کو بچالوں گا اور کارپوریٹ انتظام کی پیروی کروں گا؟ بے شک۔ بینک کی تجوریوں کی چابیاں حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کروں گا۔ اگر کسی ایسی لومڑی سے، جو مرغی خانے کی منتظم ہو، یہ وعدہ لینے کی کوشش کریں کہ وہ بھوک لگنے پر چوزوں کو نہیں کھائے گی، تو بھلا وہ کیا جواب دے گی؟ میرا وعدہ بھی لومڑی کے وعدے جیسا ہی مقدس اور محترم ہوگا۔ آپ مرغی خانے کی چابیاں کسی لومڑی کے سپرد نہیں کرتے خواہ وہ کتنی ہی نیک اور شریف کیوں نہ ہو۔
لیکن ریزرو بینک آف انڈیا(RBI) جو ہندوستان کے مالی اور بینکنگ نظام کا آخری پہریدار اور سرپرست ہے، وہ مرغی خانے کا نظم و نسق لومڑی کے ہاتھوں میں دینے کو آمادہ وتیار ہے۔ آربی آئی نے ایک انٹرنل ورکنگ گروپ تشکیل دیا ہے تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ کیا بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو بینکوں کے فروغ کا لائسنس دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں آر بی آئی نے بڑے پیمانے پر عوامی مباحثوں کے بغیر یہ سفارش کی ہے کہ انہیں بینکوں کو چلانے کی اجازت دی جائے۔ آر بی آئی کا یہ اقدام ناقابل جواز ہے۔ بڑے تاجروں کو بینک چلانے کی اجازت دینے کے سلسلے میں گزشتہ پچاس سالوں میں، لائسنس دیے جانے کے بینکنگ ضابطوں میں کوئی ڈھیل نہیں دی گئی ہے۔ جب بھی ایسی درخواستیں آئیں، اُن پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ آربی آئی کی خود اپنے انٹرنل ورکنگ گروپ نے ’’یہ پایا کہ ایک کو چھوڑ کر باقی تمام ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کارپوریٹ/ انڈسٹریل گھرانوں کو بینک چلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے‘‘۔ اس رپورٹ کے بعدبھی آر بی آئی کا موقف نہ صرف حیران کن ہے بلکہ مایوس کن بھی ہے۔
یہ ایک خوش آئند قدم نہیں ہے
ایک مشترکہ مکتوب مورخہ 23نومبر2020 میں، سابق آر بی آئی گورنر رگھورام راجن اور سابق آر بی آئی ڈپٹی گورنر وِرال آچاریہ نے بینکنگ کے میدان میں کارپوریٹس کو اجازت دیے جانے سے متعلق سفارشات کو ایک ’’بم دھماکہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اُن دونوں کی رائے ہے کہ یہ تجویز ’’اگر الماری میں ہی رہے تو بہترین ہوگا۔‘‘ خود اپنے نجی بینک رکھنے والے تجارتی گھرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’نجی بینکوں سے خود قرض لینے کی تاریخ بلاشک و شبہ تباہ کن رہی ہے۔ بینک قرض کی واپسی پر کس طرح اصرار کرسکتا ہے جب بینک قرض دار کا ہو؟ یہاں تک کہ ایک مستعد آزاد ضابطہ کار کے لیے جسے دنیا کی معلومات ہوں، یہ کام مشکل ہے کہ وہ ناقص قرض دیے جانے کے عمل کو روکنے کے لیے مالی نظام کے ہر گوشے میں موجود رہے۔ یس بینک(Yes Bank) نے اپنے کمزور پہلوؤں کو کافی عرصے تک چھپائے رکھا۔‘‘
بلاشبہ مسٹر راجن یا مسٹر آچاریہ کی جانب سے آنے والا کوئی بھی تبصرہ موجودہ حکومت کے نزدیک جانبدارانہ یا کسی کے اکسانے پر لکھا جانے والا تصور کیا جائے گا۔ لیکن دوسرے ماہرین نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم نہیں کیا ہے۔ پروفیسر ٹی ٹی رام موہن نے اس اخبار میں لکھا: ’’اگر حالیہ سالوں میں کارپوریٹ دنیا میں زیادہ سے زیادہ توجہات اور نوازشات کا ریکارڈ کسی درجہ بھی قابل اعتبار سمجھا جائے تو حاصل کلام یہی ہوگا کہ بینکنگ میں کارپوریٹ گھرانوں کی آمد ایک عظیم تباہی و بربادی ثابت ہوگی۔‘‘ ہیمندرا ہزاری، ایس ای بی آئی (Securities and Exchange Board of India) کے مشہور و معروف محقق تجزیہ نگار ہیں۔ انہو ںنے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس کا عنوان ہے: ’’آربی آئی کے ورکنگ گروپ نے لومڑی کو چوزوں کے دربے کا مہتمم بنانے کی سفارش کی ہے۔‘‘ ’’یہاں تک کہ موجودہ مالی بندوبست میں آر بی آئی اُن قرض جات کا اوّلین مرحلے میں پتہ لگانے میں ناکام رہا جن کی وجہ سے بڑی اور منضبط مالی ہستیاں زمیں بوس ہوگئیں۔ ان میں IL&FS، یس بینک(رانا کپور اور اُس سے متعلق ہیئتوں کی ستمبر 2018تک 10.6%ہولڈنگ)، پنجاب اور مہاراشٹر کوآپریٹیوبینک اور DHFL(39%ہولڈنگ)۔ کیا یہ مؤثر طور پر اُن بڑے اور پیچیدہ صنعتی گھرانوں کو کنٹرول کرنے اور اُن کی نگرانی کرنے پر قادر ہوں گے جو غیرشفاف درون ملک اور بیرون ملک مقیم ہیئتوں کے ایک بڑے جال کے ذریعہ مالی لین دین کو چھپانے اور انہیں کوئی اور شکل دینے میں مہارت رکھتے ہیں؟‘‘ بلومبرگ میں ایک سخت تنقیدی مضمون ’’ہندوستان کے بینکنگ قاعدوں کو لازم ہے کہ وہ دھنّا سیٹھوں کے ساتھ دوست پروری کے دروازے بند کریں‘‘ میں مشہور و معروف تجزیہ نگار اینڈی مکھرجی نے لکھا ’’ٹیلی کمیونی کیشنز سے لے کر ٹرانسپورٹیشن تک، ہندوستان کا میدان تجارت، ایک مونوپولی بورڈ کے مشابہ ہوگیا ہے۔‘‘
آر بی آئی بڑے تجارتی گھرانوں کو بینکوں کو اپنی ملکیت میں لینے اور اسے فروغ دینے کی اجازت نہ دینے کے آزمودہ اصولوں اور بندشوں کو نظرانداز کررہا ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ Banking Regulation Act, 1949 میں ضروری ترمیمات کے ذریعہ ایسا کیا جاسکتا ہے۔ ان ترمیمات کا مقصد بینکوں اور غیرمالی گروپوں کے درمیان قرض جات دینے اور روابط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مجموعوں کے لیے نگراں میکنزم کو مضبوط بنانا ہے۔ 1969 میں بینکوں کو قومیایا گیا تھا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک اس مسئلہ پر آر بی آئی کا جو موقف رہا ہے، اُس سے حالیہ نقطہ نظر سراسر انحراف ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ جب بڑے تاجروں نے کام کی شروعات کی تو وہ نیک اور دیانت دار تھے لیکن رفتہ رفتہ وہ بالآخر بڑے ڈاکوؤں اور لٹیروں میں تبدیل ہوگئے جنہوں نے اپنی بے پناہ دولت اور حامل اقتدار سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر خودکو مزید مالامال کیا بلکہ مسابقہ و مقابلہ آرائی کو بھی پامال کرڈالا۔ اس بات پر یقین کرنا نری سادہ لوحی ہوگی کہ کسی کارپوریٹ گھرانے کی تحویل میں ہونے والا بینک کسی حریف کو قرض دے گا۔ مسٹر مکھرجی نے اپنے مضمون کو ختم کرتے ہوئے کہا: ’’ہر رنگ میں ڈھل جانے والے جے پی مورگنز کے لیے سرخ قالین بچھا دینا، آربی آئی کے مالی استحکام اور اُس کے منشور سے دست برداری کے مترادف ہوگا۔ 
آئندہ کا لائحۂ عمل
ہوسکتا ہے کہ پبلک سیکٹر بینک نااہل، لاپروا اور برسراقتدار پارٹی کے زیراثر ہوں لیکن پرائیویٹ سیکٹر بینک جو ایسے امراء شاہی اور بڑے تاجروں کی تحویل میں ہوں جن کی سانٹھ گانٹھ سیاستدانوں سے ہو، وہ غارت گر، ڈاکو، لٹیرے عفریت ثابت ہوں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پبلک سیکٹر بینکوں کی نجکاری اس پیرائے پر ہو کہ عوام کو اسٹاک پر وسیع اور متنوع ہولڈنگ کی اجازت دی جائے۔ اگر حکومت بینکنگ کے مالکانہ حقوق سے دستبردار ہوجائے تو اس سے پیشہ ورانہ مینجمنٹ اور وسیع تر تقسیم زر کی راہیں کشادہ ہوجائیں گی۔ پھر بینک SEBIاور آربی آئی کے سخت ضابطوں کے تحت آجائیں گے۔
کئی بار جب میری کمپنی قرض واپس کرنے میں ناکام رہتی ہے اور بات قرض وصولی ٹریبونلس تک پہنچتی ہے تو میں کس طرح سوچتا ہوں کہ کاش خود میرا ایک بینک ہوتا!ہم دورجدید کے تجار مہاراجاؤں سے نیکی کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں جب مہابھارت میں راجہ یُدھشٹر جوئے میں اپنی بیوی، خاندان اور سلطنت ہار بیٹھتا ہے؟
(کیپٹن جی آر گوپی ناتھ ایک مشاق قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ Air   Deccanکے بانی بھی ہیں)
(بشکریہ: دی ہندو)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS