محمد فاروق اعظمی
دیرسویر اپنی جگہ لیکن مکافات عمل سے کسی کو فرار نہیں۔ فرد ہو یا تنظیم قدرت کے اس قانون کا سبھی پر یکساں اطلاق ہوتا ہے جو جیسا کرتا ہے اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلتا ہے۔ جو بیچ بویا جاتا ہے، فصل بھی اسی کی کاٹنی پڑتی ہے۔اپنے ذاتی مفاد کیلئے دوسروں کے سامنے گڑھاکھودنے والا خود ہی اس میں گرجاتا ہے۔ دوسروں کے سامنے کانٹے بکھیرنے والوں کو خود بھی کانٹوں پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ وقت کی تیز رفتاری میں پتہ بھی نہیں چل پاتا ہے اور قدرت حالات کا رخ ایک دم بدل دیتی ہے۔مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس آج قدرت کے اسی اٹل قانون کی زد میں ہے۔ 2011 میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ترنمول کانگریس نے ریاست میں اپنا کوئی مدمقا بل نہیں رہنے دیاتھا۔ کانگریس اور بایاں محاذ کی مختلف پارٹیوں کو دھیرے دھیرے توڑنا شروع کیا اوران کے سرکردہ لیڈروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ خو د پارٹی سپریمو ممتابنرجی بھی کانگریس کوتوڑ کر ہی علیحدہ ہوئی تھیں اور اپنی پارٹی کا نام ترنمول کانگریس رکھا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بنگال کو ’کانگریس اور لیفٹ مکت‘بنانے کی مہم شروع کردی اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی رہیں اور آج ممتابنرجی کو اسی عمل کے مکافات کا سامنا ہے۔ان کی پارٹی ترنمول کانگریس ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔پارٹی کے زیادہ تر سینئر لیڈرایک ایک کرکے ممتابنرجی کاساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ تازہ واقعہ دنیش ترویدی کی بغاوت کا ہے۔ دنیش ترویدی راجیہ سبھا میں ترنمو ل کانگریس قانون ساز پارٹی کے لیڈر کی حیثیت رکھتے تھے اور اسی حیثیت سے راجیہ سبھا میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرکے پورے ملک کو ششدر کردیا۔ترنمول لیڈر کی حیثیت سے دنیش ترویدی پارٹی کے تمام بیرونی امور اور لائزنگ کی دیکھ ریکھ کرتے تھے۔ ممتا بنرجی نے انہیں دوسری بار لوک سبھابھیجنے کیلئے ارجن سنگھ کی بغاوت کو بھی نظراندازکردیا تھا اور آج انہی دنیش ترویدی نے ایوان بالا میں پارٹی کی اندرونی ’آلائش ‘اور ممتابنرجی کی مطلق العنانی کا آن ریکارڈ اظہار کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ سونپ دیا۔
بنگال کے سیاسی منظرنامے کو بغور دیکھا جائے تو 10برسوں کی حکمرانی کے بعد بھی اسمبلی انتخاب میںترنمول کانگریس کو سہ طرفہ ہی نہیں بلکہ چہارطرفہ مقابلہ کا سامنا ہے۔ ایک طرف تازہ خون کے ساتھ بی جے پی ممتابنرجی کو دھول چٹانے کیلئے پوری طرح تیار ہے تو دوسری طرف بی جے پی میں شامل ہونے والے ترنمول کے بڑے لیڈران کا وارہے۔ یہ لیڈران پارٹی کے ہر گھر گھاٹ سے اچھی طرح واقف ہیں اور ترنمول کو دیوار سے لگانے کیلئے ہرکمزوری سے بی جے پی کو آگاہ کررہے ہیں۔ کانگریس اور لیفٹ کا متحدہ محاذ بھی ہے جو ممتابنرجی کیلئے تیسرابڑا چیلنج ہے۔ چوتھی جانب سے چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں بھی خم ٹھونک کر میدان انتخاب میں اترنے کا اعلان کررہی ہیں۔ہر چند کہ یہ چھوٹی علاقائی پارٹیاں بنگال میں زمینی گرفت سے محروم ہیں لیکن ممتا بنرجی کیلئے بڑا سردردبن رہی ہیں۔ان پارٹیوں میں سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور فرفرہ شریف کے پیرزادہ عباس صدیقی کی نومولود آل انڈیا سیکولر فرنٹ ممتابنرجی کیلئے لوہے کا چنا ثابت ہونے والے ہیں۔ان دونوں کی نگاہیں مغربی بنگال کے30فیصد مسلم ووٹروں پر ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ، لوک جن شکتی پارٹی اور راشٹریہ جنتادل بھی انتخابی بازی میں شامل ہوکر درج فہرست ذات و قبائل اور پسماندہ طبقات کے ووٹوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ان چھوٹی پارٹیوں میں سب سے بڑا چیلنج عباس صدیقی کی آل انڈیا سیکولر فرنٹ ثابت ہونے والی ہے جس نے کانگریس اور بایاں محاذ کے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بنگال کی 294اسمبلی سیٹوں میں سے 193کیلئے کانگریس اور بایاں محاذ نے آپس میں معاہدہ طے کرلیا۔ باقی کی101 سیٹوں کیلئے دونوں پارٹیوں کے لیڈران سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ امروز فردا میں ان سیٹوں کی تقسیم کا بھی معاملہ نپٹ جانے والا ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ سیٹیں آل انڈیا سیکولر فرنٹ کو دے کر اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔
انتخاب کے دوران سہ رخی اور چہار رخی مقابلے میں چھوٹی پارٹیوں کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل، لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین بھی بنگال کے سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ آخر الذکر دونوں پارٹیوں کی نظر بنگال کے قبائلی علاقوں پر ہے۔جنگل محل کے اضلاع میں قبائلیوں کی اکثریت ہے۔ پرولیا، جھاڑگرام، مغربی مدنی پور، بانکوڑا، مغربی اور مشرقی بردوان اور بیر بھوم جیسے اضلاع ہیں، یہ پارٹیاں ان اضلاع کو ’ترنمول مکت‘ بنانے میں اہم کردار اداکرنے والی ہیں۔ یہی وہ اضلاع ہیں جہاں سے بی جے پی کے کم وبیش درجن نصف ارکان پارلیمنٹ ہیں۔مشرقی مدنی پور سے ہی ممتا بنرجی کے سپہ سالار رہ چکے شوبھندوادھیکاری کا تعلق ہے جو اب ترنمول کا قلعہ منہدم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے ان اضلاع میں 40 سیٹوں پرا پنے امیدوار اتارنے کا اعلان کیا ہے۔ جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین جھاڑ گرام میں انتخابی جلسہ بھی کرچکے ہیں۔ جھارکھنڈ میں ہی بی جے پی کی اتحاد آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین بھی ان اضلاع میں سرگرم ہوگئی ہے۔ یونین جھارکھنڈ اور اڈیشہ کے سرحدی علاقوں سے متصل بنگال کے اضلاع میں جلسے جلوس بھی کررہی ہے۔ ان دونوں کی کارکردگی تو انتخاب کے بعد ہی پتہ چلے گی لیکن ترنمول کانگریس کا ووٹ تقسیم کرنے میں بہرحال ان کے کردار سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔اسی طرح شیوسینا، جنتادل متحدہ، بہوجن سماج پارٹی نے بھی بنگال میں اپنے امیدوار اتارنے کا اعلان کیا ہے جو ممتابنرجی کی راہ نجات کو مزید دشوار بنانے والی ہیں۔
اس پس منظر میں مکافات عمل سے گزر رہی ترنمول کانگریس کیلئے 2021کا اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہونا آگ کا دریاپار کرنے جیسا ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ بی جے پی کی جارحانہ قوم پرستی، کانگریس -لیفٹ اور پیرزادہ اتحاد کے درمیان یہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ووٹ تقسیم کرکے کہیں بنگال کو ’ترنمول مکت ‘نہ بنادیں۔اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہوگی بلکہ ’مکافات عمل ‘کے قدرتی نظام کا یہ عملی ثبوت ہوگا۔
[email protected]