ششی شیکھر
دہلی کا آسمان پھر سے دھندلا سا لگ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ تک جو تارے آسمان میں چمچماتے دکھتے تھے، ان کی چمک پھیکی پڑگئی ہے اور دھوپ کی روشنی مرتی جارہی ہے جو لوگ دہلی اور قومی راجدھانی خطہ کی زمین اور آسمان کی سمجھ رکھتے ہیں ان کے لئے یہ حالت چونکانے والی ہے۔ عام طور پر دیوالی کے آس پاس ایسا ہوتا تھا۔
اس وقت یہ حال ہے تو اگلے ماہ کیا ہوگا؟ ان کے جی میں 2019کے نومبر کی یادیں خوفزدہ طور پر زندہ ہیں۔ ان دم پھلا دینے والے دنوں میں ہوا کی کوالٹی خراب حالت میں پہنچ گئی تھی اور سرکار کو اینٹ بھٹوں، کریشر، ڈیزل جنریٹر، تعمیراتی کام وغیرہ سرگرمیوں پر پابندی لگانے جیسے قدم اٹھانے پڑے تھے۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے تھے کہ اسکولوں میں چھٹیوں کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ ریل گاڑیاں گھنٹوں تاخیر سے آتی اور دہلی کے آسمان پر منڈلا رہے ہوائی جہازوں کے رخ دوسرے شہروں کی جانب موڑنے پڑجاتے۔ ہر وقت دہلی میں چھائی رہنے والی یہ دھند نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کے ساتھ بزرگوں کیلئے بھی جان لیوا ثابت ہوگئی تھی۔ اس بار تو اکتوبر کے شروع سے ہی دہلی اور قومی راجدھانی خطے کی ہوا خراب ہونی شروع ہوچکی ہے۔ ارتھ- سائنس وزارت کا کہنا ہے کہ پنجاب ، ہریانہ اور سرحدی علاقوں میں پرالی جلانے سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ شک میں مبتلا لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا اس سے کورونا کی وبا مزید بڑھ جائے گی؟
بدقسمتی سے سوال ہے۔ ’ہاں‘
کچھ تحقیقاتی کام آپ سے ساجھا کرتا ہوں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر نے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات اور ہوا میں موجود خطرناک پارٹی کولیٹ میٹر (پی ایم) 2.5کے بارے میں ریسرچ کی اور پایا کہ ہوا کی آلودگی کے سبب امریکہ میں کووڈ سے ہونے والی اموات میں 8فیصدی کا اضافہ ہوا۔ جرمنی کے آئی زیڈ اے انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اکنامکس نے اپنی ایک ریسرچ کی بنیاد پردعویٰ کیا تھا کہ نیدر لینڈ میں زیادہ ہوا کی آلودگی اور کووڈ19- کے تیز پھیلائو میں رابطہ دکھتا ہے۔ اس کے مطابق ہوا کی آلودگی کی سبب کورونا سے اموات کی شرح میں 21فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ شمالی اٹلی کی ایک ریسرچ میں بھی ہوا کی آلودگی کے سبب کووڈ سے ہونے والی اموات میں تیزی آنے کی بات کہی گئی ہے۔
حالانکہ، ڈبلیو ایچ او نے ان ریسرچوں کے عمل اور ان کے ڈاٹا کے نتائج کی پڑتال پر زور دیا ہے۔
بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان تینوں ممالک میں بڑی تعداد میں کووڈ سے اموات ہوئی ہیں۔ امریکہ میں تقریباً سوا دو لاکھ لوگ جان گنوا چکے ہیں تو اٹلی میں 36ہزار اور نیدر لینڈ میں 6700سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ ہندوستان میں متاثرین کی تعداد 75لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے اور اب تک ایک لاکھ تیرہ ہزار لوگ جان گنوا چکے ہیں۔ ہمارے یہاں حالت اب بھی سدھری ہوئی چل رہی ہے، موت کی شرح بھی گھٹ کر 1.5فیصد کے آس پاس آگئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکز کے ساتھ مل کر ریاستی سرکاروں نے کورونا سے زبردست لڑائی لڑی ہے۔ گزرے مارچ کے آخری ہفتے میں جب یہ صاف ہوگیا تھا کہ ہندوستان پر بھی وبا کا حملہ ہوچکا ہے، تب ہمارے پاس نہ اسپتال تیار تھے، نہ لیب اور نہ ہی تربیت یافتہ ہیلتھ ملازمین۔ اس کے باوجود ہماری مشینری بغیر لڑے ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔ آپ کو ممبئی کے اس اسپتال کی تصویر آج بھی شاید یاد ہو جو دکھاتی تھی کہ کیسے ایک کورونا متاثر مریض مردے کے ساتھ بستر ساجھا کررہا ہے۔ آج ہندوستان میں وبا کا گراف گر رہا ہے، لیکن ہوا کی آلودگی کے یہ اعداد وشمار ہمیں انتباہ دیتے ہیں کہ مہاماری پھر سے واپس ہوسکتی ہے۔
ویسے بھی، دنیا میں70لاکھ لوگ ہر سال فضائی آلودگی کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کی وجہ یہ ہے کہ دل، پھیپھڑے، کینسر اور سانس سے متعلق بیماریوں کو آلودگی کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ گزشتہ سال جاری ہوئی ’ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ‘ کے مطابق، دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں ہم پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ یہی نہیں دنیا کے اعلیٰ ترین آلودہ تیس شہروں میں سے 21ہمارے ملک میں ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ سال در سال یہ ڈیزاسٹر طاقتور کیوں ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود ہماری حکومتیں اس ایشو پر کتنی سنجیدہ ہیں یہ جاننے کے لئے ہریانہ اور پنجاب کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ ہر سال گھڑیالی آنسو بہائے جاتے ہیں کہ یہاں پرالی جلائی جارہی ہے جبکہ اعلیٰ عدالت کہہ چکی ہے کہ اس پر پابندی لگائیں، لیکن مرکز ریاستی سرکاروں اور کسانوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان دو ریاستوں میں فصل کی زیادہ تر کٹائی مشین سے ہوتی ہے یہ مشینیں قریب ایک فٹ اوپر سے فصل کاٹتی ہیں۔ نتیجتاً نیچے کا حصہ کھیت میں بچا رہ جاتا ہے کسانوں کی شکایت ہے کہ انہیں جلانے کے بجائے کاٹنے میں فی ایکڑ پانچ سے چھ ہزار روپے کا خرچ آئے گا۔ اس مسئلے کا حل ’پیڈی اسٹراچاپر‘ ہے، لیکن اس کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے۔ حکومت اس پر بھاری سبسڈی دیتی ہے لیکن کسان اسے نہیں لیتے ہیں۔ ریاستی حکومتیں کہتی ہیں کہ اس کٹائی کا خرچ مرکزی حکومت برداشت کرے اور مرکز کم قیمت پر مشینیں مہیا کرانے کی بات کہہ کر کنی کاٹ جاتی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے حکمراں اس مسئلے کو سلجھا رہے ہیں یا الجھا رہے ہیں؟
در اصل ہماری حکومتیں مرض کا علاج کرنے کے بجائے مریض کے علاج میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ اس لئے ان کے حل بھی فوری نہیں ہوتے۔ مثلاً دہلی این سی آر میں ڈیزل جنریٹروں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں قدرت کا قہر اور زیادہ بڑھا تو گزشتہ برسوں کے طریقے پھر سے دہرائے جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کورونا کے سبب بند پڑے اسکول راجدھانی میں ایک دو مہینے اور نہ کھل سکیں، ٹھپ پڑی اڑانوں کو بھی ٹھپ ہی رہنے دیا جائے اور ہر اس کام پر بندش تھوپ دی جائے جس سے دھول یا دھواں ہوتا ہے۔ اس سے فوری طو رپر بھلے ہی کچھ فائدہ نظر آجائے مگر اصل مسئلہ تو جیسے کا تیسا بنا رہے گا۔ موجودہ وقت میں جب مہینوں سے متاثرہ تمام سرگرمیوں کو ان لاک کیا جاتا ہے تب یہ حالت معیشت کو ایک اور کرارا نقصان پہنچاتی ہے۔
ہندوستانیوں کی یہ عادت ہے اور ادا بھی کہ ہم ناامیدی کے زبردست اندھیرے میں بھی امید کا دِیا ڈھونڈھ نکالتے ہیں۔ اس لئے چلتے چلتے آس کی ایک بات۔ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جج مدن بھیم رائو لوکر کو پرالی سے متعلق کام کی نگہبانی کا کام سونپا ہے۔ ایسی تمام مثالیں ہیں جب لاپروا سیاسی لیڈران عدالت کے کوڑے کے ڈر سے چوکس نظر ہوتے آئے ہیں۔ کیوں نہ اس معاملے میں بھی ہم بہتری کی امید کریں۔
(بشکریہ: ہندوستان)