ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
آج ہمارے معاشرے میں علمی و فکری اختلافات نے نزاع کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جبکہ فکری اختلافات ایک فطری تقاضا ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ زندہ قوموں اور باشعور معاشروں کا امتیازی تشخص فکری اختلافات پر مبنی ہے۔ جب بھی معاشروں نے اس نظریہ کو برداشت کیا ہے تو ان کے اندر علوم و معارف اور تحقیق و تفتیش کے جدید گوشے اور پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔ تاریخی دستاویزات و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسی علمی تنوع کی بنیاد پر مسلمانوں نے پوری دنیائے افق پر اپنی ایک منفرد شان وحیثیت بنائی تھی۔ بڑے بڑے اداروں اور دانش گاہوں کی سرپرستی کرکے۔ نوع انسانی کو علم وفن اور معرفت وحکمت کی تہذیبی قدروں سے واقف کرایا تھا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں اور معاشروں کی تہذیب اور ان میں رائج افکار و نظریات کے مطالعہ کو بھی کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی واضح مثالیں۔ عہد اموی ، عہد عباسی اور خلافت فاطمی میں ملتی ہیں۔ یاد کیجیے عہد عباسی کے سربراہ ہارون الرشید نے بیت الحکمت کا قیام کیا۔ اسی طرح فاطمی دور میں دار الحکمت جیسا اہم ادارہ قائم ہوا۔ ان اداروں میں صرف مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے علوم وفنون ہی کی ترویج واشاعت نہیں ہوتی تھی بلکہ دیگر اقوام کے ادیان اور ان کی تہذیبوں کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے باقاعدہ حکومت نے اتالیق ومترجمین اور ماہرین کو منتخب کیا تھا تاکہ وہ ان کے علوم کو عربی زبان میں منتقل کریں اور پھر مسلمانوں میں دیگر علوم اور دیگر اقوام کی تہذیبوں سے آ شنائی ہوسکے۔ گویا ہمارا ماضی کئی اعتبار سے درخشاں تھا، اس میں پہلی بات تو یہ تھی کہ اس وقت علم کی تفریق اس طرح نہیں تھی جو آ ج ہمارے مابین دینی اور دنیوی کے نام پر پائی جاتی ہے، بلکہ جو شخص اسلامی ودینی مبادیات کا اسکالر ومحقق ہوتا تھا وہی بہترین سائنسداں بھی ہوتا تھا۔ وہ اپنے جدید اکتسابات واکتشافات سے معاشرے کو روشناس کراتا تھا تو وہیں دینیات کے نکات و باریکیوں سے بھی واقف کراکر معاشرے میں ہم آ ہنگی اور توازن و اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ مسلم امت کا تعلیم کے تعلق سے جو مزاج بنایا گیا ہے وہ تشویشناک ہے۔ حتیٰ کہ عہد جدید میں کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملا ہے کہ اگر کوئی مدرسے کا فاضل جدید علوم کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے تو اسے سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہمیں اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے تو ہمیں یقینی طور پر معاشرے میں تعلیم کے تئیں بڑھتی خلیج کو دور کرنا ہوگا۔ تعلیم و تربیت اور حکمت و دانائی کے آ فاقی و وسیع تصور کو رواج دینا ہوگا۔ گویا آ ج ہمیں ان درسگاہوں، دانش گاہوں اور تعلیم گاہوں کی ضرورت ہے جو ہمارے دینی اور عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی استعداد و صلاحیت رکھتے ہوں، جن کے اندر جدید و قدیم کی ہم آ ہنگی ہو۔ تبھی جاکر صحیح معنوں میں قوم کی رہبری اور قیادت و سیادت کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ ان ہی قوموں اور معاشروں کو تاریخ کے صفحات میں درج کیا جاتا ہے جن کی کار کردگی مثبت ہو۔ ذہنی و فکری غلامی سے پوری طرح آ زاد ہوں۔ وہ اپنے شعور و ادراک سے خود بھی مستفید ہوں اور دوسرے لوگ بھی استفادہ کر سکیں اور یہ وجدان اور حسیت دانائی اسی وقت آ تی ہے جب علم کو فروغ دیا جائے نیز اس میں کسی طرح کا بھی بھید بھاؤ نہ ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آ ج ہم نے علمی و تحقیقی اختلاف کی روح کو بھی مفقود کرڈالا ہے۔ جبکہ علمی اختلاف کی قدر کرنا ایک دوسرے کے فکر و نظریہ اور رائے کو تحمل و برداشت کرنا مسلمانوں کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ اسی معتدل و متوازن رویہ سے مسلم کمیونٹی نے علم و عرفان اور شعور و آگہی کے پورے جہان کو آ باد کیا تھا۔ ہر روز ہمارے فقہائ، مفکرین اور اسکالر نئی نئی دریافتیں کرتے تھے جن سے معاشر ہ امن و سکون اور عروج و ارتقا سے ہمکنار ہوتا تھا۔ ہر روز لوگ جدید افکار و خیالات سے آ شنا ہوتے تھے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مسلمانوں کی علمی فتوحات کا دائرہ اس قدر وسیع و کشادہ تھا کہ پوری دنیا کو تعلیم سے آ راستہ کیا تھا، دیار مشرق و مغرب سے لے کر ہمارا ہر جگہ نہ صرف شہرہ تھا بلکہ آج جن قوتوں کو تعلیم و تربیت اور تحقیق و تنقید کے اعتبار سے صف اول میں شمار کیا جاتا ہے، انہوں نے بھی ہماری حیثیت کو تسلیم کیا اور علم کے میدان میں ہماری تقلید کی۔خفتہ قسمتی یہ ہے کہ آ ج ہمارا وہ دبدبہ اور علمی رتبہ بہت حد تک پست و زوال پذیر ہوچکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آ ج اپنے استاد یا شیخ سے کسی مسئلہ سے الگ رائے قائم کرنا تو دوسری بات اگر اس نے اس کے متعلق کوئی سوال کرلیا تو اس کو کس قدر برا سمجھا جاتا ہے! اس کا اندازہ ہم سب لگا سکتے ہیں۔ چہ جائیکہ اس کے خلاف الگ رائے قائم کرے۔ در اصل اس طرح کے نظریات نے جہاں مسلمانوں کو فکری طور پر محصور و قید کردیا ہے، وہیں علمی میدان میں بھی ہونے والی جدید فتوحات کے تمام راستوں کو مسدود و مصلوب کردیا ہے۔ آج ہم جن ائمہ اور اسلاف کی اتباع و تقلید کو سعادت سمجھتے ہیں، ان کا وطیرہ جمہوری اور روادارانہ تھا، انہوں نے علم کے پھوٹنے والے ہرسوتے کی اہمیت و افادیت کو سمجھا۔ معاشرے میں اس کو رواج دینے کو کوئی قباحت نہیں سمجھا گیا۔
قابل رشک بات یہ ہے کہ یہ جو تنوع اور اختلاف کا اسلوب تھا اسی نے معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا کی تھی۔ اسی متوازی رویہ کی وجہ سے علمی تعمیر وترقی کی منازل تک پہنچنا نہایت آ سان ہوگیا تھا۔ کبھی بھی باہم نزاع کی نوبت نہیں آئی اور نہ ہی اسے کوئی عیب یا قصر شان سمجھا جاتا تھا۔ یقینا یہ ہماری تاریخ کے وہ زرّیں نقوش ہیں جنہیں کبھی بھی مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔ افسوس اب صورتحال بالکل برعکس ہے۔ اگرعلم کے میدان میں آ گے بڑھنا ہے تو لازمی طور پر ان نکات و اقدار کو اپنا حرزجاں بنانا ہوگا جن کی بدولت مسلمانوں میں ماہرین و مفکرین کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی تھی ان کی فکر میں توسع اور قلوب میں رحمدلی و ہمدردی پائی جاتی تھی۔ الگ الگ مکاتب و مسالک تو پائے جاتے تھے لیکن ایک دوسرے کوباطل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جب سے ہم نے ان خطوط کی پیروی سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور اپنی درسگاہوں، تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں کو مسلک و مشرب اور جماعت کے حصار میں جکڑا ہے تب سے علمی و فکری تنزلی و پستی کے ساتھ ساتھ مسلمان سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر بھی بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ اس لیے علمی اختلاف معاشرے میں ہم آ ہنگی اور رواداری پیدا کرتے ہیں۔ معاشرہ خوشحالی سے ہم کنارہوتا ہے۔علمی یا فکری اختلافات ہونا ضروری ہے۔ البتہ ان کی روحانیت نورانیت برقرار رہے۔ سنجیدگی اور حق کا دامن ہر گز نہ چھوٹے، بھلے ہی سامنے والے کی بات ہمارے نظریہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، علمی اختلاف میں کشیدگی اور تناؤ و شدت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب حق و صداقت کو تسلیم کرنے میں خودساختہ نظریات اور محدود مفادات پیش نظر ہوتے ہیں۔ یہ منفی اور تنگ نظری جہالت و نادانی کی بین دلیل ہے۔ اس سے نہ تو علمی فضا ہموار ہوتی ہے اور نہ ہی دانشمند معاشروں کا یہ وطیرہ رہا ہے۔ اپنی سابقہ عظمت کو بحال کرنے کے لیے علمی اختلافات کی سنجیدہ روایات کو یقینی بنانا ہوگا۔ کوئی بات یا رائے جب کسی کے سامنے پیش کی جائے تو اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ کسی اعتراض کو اپنی کسر شان تصور کرلینا اہل وعلم ودانش کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ سامنے والے کی بات اگرچہ سراسر خلاف یا غلط ہے پھر بھی ہمیں سنجیدگی اور متانت سے دفاع کرنا چاہیے۔
آ ج جو کچھ بھی ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہورہا ہے، اس نے ہماری ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان تمام احوال اور قبیح افعال و اعمال کا دفاع کرنے کے لیے جہاں علم کی دولت سے سرفراز ہونے کی ضرورت ہے تو اس سے کہیں زیادہ اختلاف آ را میں سنجیدہ کردار نبھانے کی بھی ضرورت سے انحراف ممکن نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ سنجیدگی سے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جو میراث ہم نے اپنے اسلاف و اکابر سے پائی تھی، کیا اس کی اسی طرح اہمیت برقرار ہے جس طرح ہمارے بزرگوں نے کی تھی۔ نئے دور کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے کس قدرچاق و چوبند رہنے کی ضرورت ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ البتہ کسی بھی معاملے میں سنجیدگی اسی وقت برقرار رہتی ہے جب کہ معاشرے کے افراد اپنے علمی و تحقیقی اختلافات کو تشدد و بربریت کا رخ نہ دیں۔
[email protected]