پٹیالیہ ہائوس کورٹ کا فیصلہ

0

دشا روی ٹول کٹ معاملے میں دہلی کی پٹیالیہ ہائوس کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کے سوکھ رہے دھانوں پر مینہ بن کر برسا ہے۔ معزز عدالت نے عام شہریوں کو حکومت کے ضمیر کا محافظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو صرف اس لیے جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ سرکاری پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا ہے اور اس کاناقد ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے دیکھا جارہا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت، حب الوطنی اور قوم پرستی کی نئی نئی تعریفیں سامنے آرہی ہیں۔ مقتدر طبقہ سے اختلاف رائے رکھنے والوں کو ملک کا غدار اور قوم دشمن قرار دینا ایک ریت بن گئی ہے۔ اظہار رائے پر پابندی کے نئے نئے طریقے وضع کیے جارہے ہیں۔ ناقدین کی زبان بندی کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال عام ہوگیا ہے۔
متنازع زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلارہے کسانوں کی حمایت میں مہم چھیڑنے والی ماحولیاتی کارکن دشاروی کی زبان بندی کیلئے بھی یہی حربہ استعمال کیاگیا اوران پر ملک سے غداری کا الزام عائد کرکے جیل کی سلاخوں میں ٹھونس دیاگیا۔ دہلی پولیس کی یہ ظالمانہ کارروائی کسی بھی مہذب جمہوری معاشرہ کیلئے ایک بدنما داغ کی طرح تھی۔ دہلی کے پٹیالہ ہائوس کورٹ نے دشاروی کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے نہ صرف اس داغ کو دھونے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے فیصلہ اور ریمارکس سے جمہوریت کی رگوں کو بھی شاداب و سرسبز کیا ہے۔ دشا روی کو ضمانت پر رہا ئی کے اپنے حکم میں عدالت نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی ہے اور کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اس کے شہری حکومت کے ضمیر کے محافظ ہوتے ہیں۔انہیں صرف اس لیے سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں۔محض حکومت کی مجروح انا کی تسکین کیلئے کسی کو غداری کے مقدمہ کا سزاوار نہیں ٹھہرایاجاسکتا ہے۔
اس سے قبل بھی کئی بار عدالتیں اظہار رائے کی آزادی پر زوردے چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کئی بار یہ کہا ہے کہ اظہار رائے جمہوریت کی اساس ہے۔اس پر قدغن لگاکر ہم سچائی کا گلا گھونٹ دیں گے۔ سیاسی مذاکرات اور اظہار رائے کی آزادی کا دائرہ وسیع کرکے ہی ہم حکومت کے کام کاج کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ اختلاف رائے، تنقیدا ور اظہار ناراضگی شہریوں کا بنیادی حق ہے اوراس پر کوئی حکومت بندش نہیں لگاسکتی ہے۔ مگر حکومتیں اپنی طاقت اور عددی برتری کے زعم میں اپنے اعمال و افعال کو ہر طرح کے احتساب اور تنقید سے ماورا خیال کرتی ہیں۔پہلی فرصت میں وہ ہرایسی آواز کا گلاگھونٹنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان سے اتفاق نہ رکھتی ہو۔ دشاروی کے معاملے میں بھی حکومت نے تل کا تاڑ بنایا اور ان کے اختلاف رائے کو ملک دشمنی و علیحدگی پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر غداری کامقدمہ قائم کردیا۔ بغیر کسی ثبوت کے پیش کیے گئے اس مقدمہ کا حشر بھی وہی ہوا جو سچ کے سامنے جھوٹ اورحق کے سامنے باطل کا ہوتا ہے۔دشاروری کو ضمانت ملی اوردہلی پولیس اور حکومت کے حصہ میں ذلت و خواری آئی۔
کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے ہی حکومتیں یہ بات فراموش کردیتی ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ریاست اور مملکت نہیں بلکہ ایک میقاتی انتظامی بندوبست ہیں جنہیں آج نہیں تو کل اپنی مدت کا ر پوری کرکے گھر واپس جانا ہے۔سایہ شمشیر میں عوام پر کوئی فیصلہ نافذ نہیں کر سکتی ہیں۔ ملک میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ جن کی منظوری کے بغیر نہ تو کوئی حکومت قائم رہ سکتی ہے اورنہ کوئی قانون سازی ہوسکتی ہے۔عام شہری صرف ایک ووٹر نہیں بلکہ حکومت کے ہر قول و فعل کا نگراں اور اس کے ضمیر کا محافظ ہے۔ آئین کی شکل میں ایک ایسی دستاویز بھی ہے جس سے رو گردانی کرکے حکومت اپنی مدت کار پوری نہیں کرسکتی ہے۔ عوام کی بنائی ہوئی یہی دستاویز عوام کو حق دیتا ہے کہ وہ حکومت پر تنقید او ر اس کی کارکردگی کا محاسبہ کریں تاکہ حکومت کی کج روی کا سدباب ہوسکے۔ یہ محاسبہ اور تنقیداظہار رائے کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ عوام کی انفرادی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کے عناصر ثلاثہ سے مل کر ہندوستان کی جمہوریت تشکیل پاتی ہے، اس میں کسی ایک عنصر کے بھی پر کتردیے جائیں تو جمہوریت کی عمارت اپنی بنیادوں سے گر جائے گی۔بدقسمتی سے ہندوستان میں گزشتہ چند برسوں سے یہی کوشش ہورہی ہے کہ جمہوریت کو محدو د کیا جائے، اس کیلئے ہر طرح کی ترکیبیں استعمال کی جارہی ہیں۔ کہیں طاقت کا استعمال ہورہاہے تو کہیں قوم پرستی اور حب الوطنی کی قربان گاہ پر جمہوریت کی بھینٹ دی جارہی ہے۔ دشاروی کے معاملے میں بھی حکومت نے اسی جعلی قوم پرستی اور حب الوطنی کی آڑ لینے کی کوشش کی تھی لیکن دہلی کے پٹیالیہ ہائوس کورٹ نے یہ قلعی اتار دی ہے۔ امید تو نہیں ہے کہ عدالت کی سرزنش اور تادیب سے حکومت عبرت پکڑے گی لیکن ہاں عوام کے جمہوری حقوق پر بے لگام ڈاکہ زنی کی کوشش میں کچھ وقفہ ضرور آسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS