پرالی جلائے جانے کا مسئلہ

0

تارنی مہتا/لکشیہ گپتا
(مترجم: محمد صغیرحسین)

گزشتہ 15ستمبر تک پرالی جلانے کے خلاف کوئی کیس درج نہ تھا لیکن اُس کے 6دنوں بعد 42معاملات درج ہوئے۔ پرالی جلائے جانے کی شروعات ہریانہ میں بھی ہوگئی ہے۔ ہر سال اس موسم میں عوام کی تشویشات سے اخبارات کے صفحات بھرے ہوتے ہیں۔ شوروغوغا، مطالبات، باتیں، وعدے، طفل تسلیاں، خاموشی اور یہ مسئلہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود جوں کا توں پڑا رہ جاتا ہے۔ اس سال بھی یہی کچھ ہوگا۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ای پی سی اے Environment Pollution (Prevention & Control) Authorityنے پنجاب اور ہریانہ حکومتوں سے کہا ہے کہ پرالی جلائے جانے کے چلن میں تخفیف کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہیے، کیوں کہ کووڈ-19وبا سے پہلے سے ہی متاثر عوام کی صحت کو جو خطرہ لاحق ہے، وہ فضائی آلودگی کی وجہ سے شدید تر ہوجائے گا۔
کورونا وائرس کے اثر سے مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے پرالی جلائے جانے کی وجہ سے جو آلودگی پیداہوتی ہے وہ اور بھی تشویشناک ہوجاتی ہے۔ یہ صورت حال پنجاب، ہریانہ اور این سی آر کے لیے خاص طور پر بہت مضر ہے۔ آلودگی کی بڑھی ہوئی سطحیں نہ صرف پھیپھڑوں کوخراب کرنے والے دقیق مادّوں کے ارتکاز کو بڑھاتی ہیں بلکہ آلودگی پیدا کرنے والے زہریلے مادّوں مثلاً کاربن مونوآکسائڈ، میتھین اور کینسر خیز ہائیڈروکاربن کی پیداوار میں اضافہ بھی کرتی ہیں۔
نیشنل گرین ٹریبونل (National Green Tribunal) اور سپریم کورٹ دونوں نے ہی پرالی جلائے جانے پر پابندی لگاتے ہوئے کہا کہ یہ عمل آئین کے آرٹیکل کے تحت آلودگی سے پاک ماحول کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ این جی ٹی نے 2015میں یہ حکم دیا تھا کہ پرالی جلانے والے کسانوں کو ماحولیاتی معاوضہ دینا ہوگا۔ ان تمام احکامات کے باوجود پرالی جلائے جانے کا عمل خوب زور شور سے جاری ہے۔
حکومت کی فراہم کردہ سبسڈیز اور ترغیبات، پرالی کے متبادل استعمال پر کسانوں کو آمادہ کرنے میں ناکام رہیں۔ کسانوں کو جو سبسڈیز دی جارہی ہیں وہ ایندھن اوربجلی کی اضافی لاگت کی بھرپائی کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔ اضافی مشینوں کی لاگت بھی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان اسکیموں کو وضع کرنے والے کسانوں کی زندگیوں کی سماجی اور معاشی حقیقتوں سے یکسر ناواقف ہیں۔ موجودہ کووڈ بحران کے تناظر میں مالی دباؤ کا مسئلہ شدید تر ہوجاتا ہے۔ ہندوستان، تالہ بندی کے معاشی اثرات سے جوجھ رہا ہے۔ اس انتہائی متعدی مرض کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی خاطر لوگوں کو اپنی طرزحیات میں تبدیلی لانی پڑی۔ اس کے پیش نظر پنجاب اور ہریانہ کی حکومتوں نے ایک لائحہ عمل سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جس نے EPCAکے نفاذ کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے Custom-hiring centres/CHCکی تعداد میں اضافے کا بھی حکم دیا تاکہ کسان، کاشت کاری سے متعلق سازوسامان کرائے پر حاصل کرسکیں۔ لیکن یہ اقدامات کافی نہ ہوں گے کیوں کہ مشینوں کو کرائے پر لینے کی سکت بھی کسانوں میں پیدا کرنی ہوگی۔
اس مسئلے کے مؤثر حل کے لیے جامع اور سماجی پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی جو اس مسئلے کی جڑوں کو پیش نگاہ رکھے کیوں کہ پرالی جلانا ایک بڑے مسئلے کی علامت محض ہے۔ ہمیں ناقابل برداشت زرعی طور طریقوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ گیہوں اور چاول سے ہٹ کر دیگر فصلوں کو اپنانا ہوگا جن میں بہترین تعاون اور ترغیبات کی ضرورت ہوگی۔ سردست ضرورت یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سماج کو شامل حال کیا جائے تاکہ پرالی کو کسانوں کے لیے منافع بخش بنایا جاسکے، مثلاً چھتیس گڑھ نے گوتھانوں کے فروغ کے ذریعہ ایک مشارکتی ماڈل شروع کیا۔ دراصل گوتھان، ہرگاؤں میں گاؤں سماج کی ایک مشترکہ اراضی ہوتی ہے جہاں گاؤں کے کسان پرالی جمع کرتے ہیں تاکہ اُسے نامیاتی(Organic) کھاد میں تبدیل کیا جاسکے۔ پرالی کو کھیتوں سے اُٹھاکر قریب ترین گوتھان پہچانے کا خرچ ریاستی سرکار اُٹھاتی ہے۔ یہ کام نوجوانوں کی روزی روٹی کا ایک ذریعہ بھی بن گیا ہے جو فصل کی فاضل اشیا کو نامیاتی کھاد میں بدلنے کا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح مغربی اترپردیش کے پچاس گاؤں والوں نے پرالی کو کھاد بنانے کا ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ ہریانہ میں کسانوں کے ایک گروپ نے دستی کاشتکاری کے روایتی طریقوں کو اپنالیا ہے۔ وہ پرالی کو دوسرے کسانوں کو بیچ دیتے ہیں جو اسے چارے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
کرناٹک کے گاؤں کرن گیٹ ولو (Kirangatevalu) میں بجلی بنانے کا ایک پلانٹ لگایا گیا جو زرعی فضلات مثلاً گنے کی ٹھوٹھ یا ناریل کی مونجھ سے چلتا ہے۔ گاؤں کے کسان اپنی زرعی باقیات کو پلانٹ کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں اور انہیں بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ دس کلومیٹر کے نصف قطر(Radius) کے دائرے میں واقع تمام گاؤں سے پورے سال پرالی اور دیگر فضلات آتے رہتے ہیں اور بجلی کی مسلسل فراہمی ہوتی رہتی ہے۔ اس پلانٹ سے پیداشدہ بجلی سے 48گاؤوں کے 1,20,000 افراد فیضیاب ہورہے ہیں۔ باہمی امداد وتعاون کا ماڈل ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوچکا ہے۔ ڈیری انڈسٹری نے اس کی کامیابی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے بڑھ کر ایسے حل تلاش کیے جائیں جو کسانوں کی تنگیٔ داماں اور ناگزیر مالی ضرورتوں کا احاطہ کریں۔ یہ حل جامع اور مشارکتی ہونے چاہئیں جو کسانوں کے لیے موافق وسازگار ہوں اور اُن کے لیے دیرپا زرعی طور طریقوں کو اپنانے کی راہ ہموار کریں۔
(بشکریہ: دی اسٹیٹسمین)
(تارنی مہتا ماحولیاتی قانون کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور لکشیہ گپتا اوپی جندل گلوبل یونیورسٹی میں قانون کے پانچویں سال کے طالب علم ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS