سرحد پر امن کی راہ

0

ششانک

ہندوستان اور چین کے مابین ساتویں دور کی فوجی بات چیت کم و بیش بے نتیجہ رہی۔ دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں کی یہ بات چیت سرحدی تنازع کے نمٹارے کے لیے ہورہی ہے۔ بیچ بیچ میں دونوں ملکوں کے سیاستداں اور سفارت کار بھی بات چیت کی میز پر بیٹھتے رہتے ہیں۔ جیسے گزشتہ دنوں ہندوستانی وزارت داخلہ کے جوائنٹ سکریٹری، جو چین سے اچھی طرح واقف ہیں، بات چیت میں شامل ہوئے تھے۔ چین کی طرف سے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ مگر جس منشا کے ساتھ فوجی سطح کی بات چیت چل رہی ہے، وہ شاید ہی پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ سیاسی اور سفارتی سطح کی بات چیت میں بھی بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہورہی۔ ہاں، دونوں فریق ہر بار یہ اعلان ضرور کرتے ہیں کہ معاہدے کے پرانے پوائنٹس و حکومت کے سربراہوں کی سطح پر ہوئے معاہدہ کے اوپر دونوں ملک تیار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پرانے معاہدوں سے دونوں ممالک پیچھے نہیں ہٹ رہے، لیکن دوطرفہ بات چیت میں کوئی پیش رفت بھی نہیں ہورہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ بات چیت اپنے انجام تک کیوں نہیں پہنچ پارہی ہے؟ اس کی بڑی وجہ چین کی غلط فہمی ہے۔ اسے لگتا ہے ہندوستان ایشیا میں امریکی مفادات کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ چین پہلے اپنی طاقت کے مظاہرہ سے پرہیز کرتا تھا، لیکن اب وہاں ’چائنا ڈریم‘ کی کھل کر چرچہ ہونے لگی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ خواب، دراصل دو جہتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ پہلا چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے 100 سال پورے ہونے پر، یعنی 2020تک یہاں کے سماج کو ریسورس فل(وسائل سے لیس) بنانا اور دوسرا 2049تک، یعنی کمیونسٹ حکومت کے 100سال پورے ہونے تک ملک کو جدید اور طاقتور ملک کی قطار میں سب سے آگے لانا۔ چین کا یہ خواب تبھی پورا ہوسکتا ہے، جب امریکہ کو سپرپاور کی گدی سے بے دخل کردیا جائے۔ چوں کہ اسے لگتا ہے ہندوستان ایشیا میں امریکہ کا ’پچھ لگّو‘بن گیا ہے (جوبالکل صحیح نہیں ہے) ، وہ ہم پر دباؤ بنارہا ہے۔
اسی طرح اس کی ایک بیجا سوچ یہ بھی ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنی معاشی کالونیاں بناسکتا ہے۔ معاشی توسیع پسندی کی اس پالیسی کا اس نے سری لنکا، نیپال، پاکستان، بنگلہ دیش جیسے ہمارے پڑوسی ممالک میں خوب استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھریلو معاملوں میں اس کا تبصرہ زیادہ ہوگیا ہے اور وہ ہندوستان کے تقریباً ہر ایک قدم کی مخالفت کرنے لگا ہے۔ سرحدی تنازع کو بے وجہ ہوا دینا اس کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
مگر اس کا اسے خود نقصان ہوا ہے۔ ہندوستان نے کبھی چین سے مقابلہ کرنے کی نہیں سوچی۔ ہندوستانی قیادت کا یہی ماننا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں چین بے شک سب سے بڑی عالمی طاقت بن جائے، لیکن بڑی تین معاشی طاقتوں میں ہندوستان بھی شمار ہوگا۔ اسی سوچ کے تحت ہم آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ہم یہی کہتے بھی رہے ہیں کہ گلوبل فورمز پر چین کی اپنی جگہ ہے اور ہندوستان کی اپنی۔ مگر مئی-جون ماہ سے جس طرح سے سرحد پر کشیدگی کا ماحول بنا ہوا ہے، اس سے چین کے تئیں عدم اعتماد کا جذبہ گہرا ہوگیا ہے۔ اسے بڑھانے کا کام وہاں کا میڈیا بھی کررہا ہے، جو وقت بے وقت 1962کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
ایک کمزوری ہماری بھی رہی ہے۔ ہم بہت امید میں جیتے ہیں۔ چین کے ساتھ جب ہماری دوستی تھی، تب ہم تاحیات اچھے دوست بنے رہنے کی قسمیں کھاتے تھے اور آج جب امریکہ سے ہماری قربت میں اضافہ ہوا ہے تو ہم ایسے خواب دیکھنے لگے ہیں کہ آنے والے دنوں میں نئی دہلی اور واشنگٹن ایک دوسرے کے مترادف بن جائیں گے۔ جب کہ اس امید کے پورا ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے۔ تائیوان، جاپان، کوریا، آسٹریلیا یا سنگاپور جیسے ملک اس کے لیے اہم ہیں، ہندوستان نہیں۔ ان ممالک کے ساتھ اس کے کئی طرح کے تعلقات ہیں جو سفارتی، سیاسی و معاشی منشا کے تحت بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کویڈ (ہندوستان، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی تنظیم) میں یکجہتی دکھانے کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن اس کا ایسا کوئی منشور نہیں نظر آتا، جس میں ہندوستانی مفادات کی وکالت کی گئی ہو۔ امریکہ بحیرئہ جنوبی چین میں اپنے پاؤں پسارنا چاہتا ہے، تاکہ چین پر وہ دباؤ بناسکے۔ عالم یہ ہے کہ امریکی ڈپلومیٹ بھی دبی زبان میں کہنے لگے ہیں کہ اگر نئی دہلی واشنگٹن کے قریب آنا چاہتی ہے تو اسے اپنی گھریلو پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔
سوال ہے کہ اس صورت حال میں ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ سب سے پہلے تو ہمیں چین کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے۔ اسے بتانا ہوگا کہ ہندوستان اور امریکہ کی راہیں جدا ہیںاور اگر اس کے گھریلو ادارے دونوں کو ایک مانتے ہیں تو ان کو نئے سرے سے ہندوستان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسے یہ بھی پیغام دینا ہوگا کہ اگر وہ ہندوستان سے دوستی چاہتا ہے تو اسے دباؤ بنانے کی حکمت عملی چھوڑنی ہوگی۔ چین کو یہ احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ اس کی مالی حالت خراب ہے، اس کے بینک دیوالیہ ہونے والے ہیں، بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیئٹو(بی آر آئی) کی وجہ سے اس کی بین الاقوامی شبیہ کو دھکا لگا ہے اور امریکہ سے تناؤ اس کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بات چیت کی میز پر ہندوستان نرم رُخ اپنائے۔ اسے مضبوطی سے یہ بات رکھنی ہوگی کہ ہندوستان اپنے مفادات کے تئیں سنجیدہ ہے اور اس سے قطعی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اسی لیے بیجنگ امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے ہندوستانی کندھے کا استعمال نہ کرے۔ بدلنا چین کو ہے اور اگر اسے امریکہ سے لڑنا ہے تو وہ پہلے اپنے گھریلو حالات کو سدھارے۔ ہندوستان ایک امن پسند ملک ہے، لیکن اسے اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہندوستان کسی بھی ملک سے تناؤ کا کبھی حمایتی نہیں رہا ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار سابق خارجہ سکریٹری ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS