ملاوٹ کا مہلک مرض

0

اکھلیش آریندو

حال ہی میں شہد کے تیرہ نمونوں کی جانچ ہوئی، جس میں محض تین نمونے ہی خالص ہونے کے معیار پر کھرے اترے۔ سی ایس ای یعنی سائنس اینڈ انوائرنمنٹ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ٹھنڈے مشروبات میں 2003-06کے بیچ جانچ کے دوران جو ملاوٹ شہد میں پائی گئی تھی، اس سے بھی خطرناک ملاوٹ پائی گئی، وہ ملک کے مقبول برانڈ ہیں۔ آیورویدک پروڈکٹ بنانے والی یہ کمپنیاں کروڑوں لوگوں کے یقین پر کھری سمجھی جاتی رہی ہیں۔ شہد میں ملاوٹ کرنے والے ان برانڈوں میں فریکٹوز اور چینی ملائی جاتی ہے۔ سی ایس ای کے ذریعہ کی گئی تازہ جانچ میں شہد میں 77فیصد تک ملاوٹ پائی گئی ہے۔ غورطلب ہے کہ شہد میں چینی ملائے جانے کی بات گاؤں دیہات میں بھی کہی جاتی ہے۔ ایک جرمن لیباریٹری میں شہد کے نمونوں کی جانچ میں کئی مشہور کمپنیوں کے اس پروڈکٹ کو شامل کیا گیا تھا۔ جن 22نمونوں کی جانچ کی گئی ان میں پانچ ہی خالص ہونے کے معیار پر پورے اترے۔ جانچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ای-کامرس ویب سائٹ پر ایسے سیرپ کی فروخت ہورہی ہے جو جانچ کو بھی بھرم میں ڈال سکتے ہیں۔
نئی جانچ سے عام عوام کا مقبول برانڈوں کے اوپر سے یقین ختم ہونا طے ہے۔ آیوروید کی دنیا کے جن بڑے ناموں پر لوگ برسوں سے یقین کرتے آرہے تھے، وہی نئی جانچ میں کھرے نہیں اُترے۔ اس سے آیوروید کی دنیا کے تئیں بھی بڑھتے لوگوں کے رجحان میں کمی آسکتی ہے۔ اب معاملہ محض شہد کا نہیں رہ گیا ہے، بلکہ بڑے برانڈوں کے سبھی پروڈکٹ کا ہے کہ باقی آیورویدک پروڈکٹ میں مذکورہ کمپنیاں ملاوٹ کررہی ہیں یا نہیں! غور طلب ہے کہ جب ٹھنڈے مشروبات کی جانچ 2003 سے 2006کے دوران ہوئی تھی اور ان میں زہریلے کیمیکلز کی ملاوٹ کی بات سامنے آئی تھی، تب ٹھنڈے مشروب بنانے والی کمپنیوں کے لائسنس رد کرنے کا مطالبہ اٹھا تھا۔ اب جب آیورویدک دواؤں اور دیگر پروڈکٹ کو بنانے والی مشہور ہندوستانی کمپنیوں کے ذریعہ ملاوٹ کرنے کی بات سامنے آئی ہے، تو کیا حکومت ان کمپنیوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھائے گی؟
یوں 2006سے ہی ملاوٹ کرنے والی کمپنیوں اور لوگوں کے خلاف سخت سزا کا التزام ہے، جس میں عمرقید تک کا نظم ہے۔ لیکن قانون کے ہاتھ کے مقابلہ قانون توڑنے والوں کے ہاتھ شاید زیادہ بڑے اور ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملاوٹ کرنے والے اونچی پہنچ اور پیسے کی طاقت پر صاف بچ نکلتے ہیں۔ مرکز کی این ڈی اے حکومت جو بدعنوانی، ملاوٹ خوری، کالابازاری، دہشت گردی اور کام چوری کے خلاف سخت قدم اٹھانے اور شفاف حکمرانی دینے کی بات کرتی رہتی ہے، کیا ملاوٹ کے خلاف ملک گیر مہم چلائے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کمپنیاں کہیں نہ کہیں سودیشی کا جھنڈا اٹھا کر لوگوں کو سودیشی کے نام پر اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہیں، ان کمپنیوں پر اسی طرح کی کارروائی کرے گی، جیسی دیگر کمپنیوں کے خلاف؟
ملاوٹ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اتنے سخت قانون کے باوجودسارے ملک میں ملاوٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے کہ کسی بھی پروڈکٹ پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ خالص ہونے کے نام پر جب آج آرگینک پروڈکٹس کی بات دنیا بھر میں آگے بڑھ رہی ہے، تو ایسے میں روزمرہ استعمال ہونے والے پروڈکس میں ہورہی ملاوٹ کئی طرح کے سوال کھڑے کرتی ہے۔
غورطلب ہے کہ ملاوٹ عالم گیر مسئلہ ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ملاوٹ کی شکل میں موجود انفیکشن کو روکنے کے لیے حکومت، عدالت اور خودمختار ادارے وقت وقت پر قدم اٹھاتے رہے ہیں، اس کے باوجود یہ مسئلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن جو عام آدمی ملاوٹ کا سب سے زیادہ شکار ہے، وہ آگے نہیں آتا۔ اس کا فائدہ اٹھاکر ملاوٹ باز اپنا دھندہ چمکاتے رہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام طرح کے مسائل پر تحریک اور بھارت بند کی اپیلیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن راست صحت سے تعلق رکھنے والے ملاوٹ کے مسئلہ کے خلاف کوئی ملک گیر مہم آج تک نہیں ہوئی۔ جیسے بدعنوانی آہستہ آہستہ معمول کا حصہ بن گئی ہے، اسی طرح ملاوٹ بھی زندگی کا ایک حصہ بن گئی ہے اور لوگ اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس لیے تحریک کی ضرورت ہے۔
ملاوٹ کی وجہ سے سب سے بڑا مسئلہ مسلسل بیماریوں کا بڑھنا اور کالابازاری ہے۔ موٹاپے کا مسئلہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہندوستان میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جب سپریم کورٹ نے دودھ میں کی جارہی ملاوٹ کا خود نوٹس لے کر سوامی سچیدانند تیرتھ کی پٹیشن کو نمٹاتے ہوئے اس تعلق سے ہدایات جاری کی تھیں، تب بھی ایک امید جاگی تھی کہ ملاوٹ میں کچھ کمی آئے گی۔ یوں تین برس قبل لوک سبھا میں حکومت کے ذریعہ یہ بتایا گیا تھا کہ ملک میں فروخت ہونے والا 68فیصد دودھ ہندوستان کے فوڈ ریگولیٹر کے ذریعہ مقررہ معیار پر کھرا نہیں اُترتا۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ہندوستان کے کروڑوں لوگ دودھ کے نام پر ملاوٹی کیمیکل والا دودھ پیتے ہیں، جو کئی طرح کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔
اس طرح سائنس اینڈ انوائرنمنٹ سینٹر نے پاستا، پزا-برگر، بنس، بریڈ اور دیگر فاسٹ فوڈ(جنک فوڈ) میں ملاوٹ کی بات کہی ہے۔ لیکن اس کا سلسلہ تھمتا نہیں نظر آرہا۔ آج بھی کولڈڈرنکس پروڈکٹس میں چینی اور خطرناک کیڑے مار دوا کی مقدار طے شدہ معیار سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ غور طلب ہے کہ طے شدہ معیار والے مشروب پروڈکٹس کو پینے سے موٹاپا، کینسر اور دوسری دیگر بیماریاں ہونے کا خطرہ برابر بنا رہتا ہے۔ ایسے میں جنک یا ڈبہ بند کھانے اور ٹھنڈے مشروبات سے دور رہنا ہی سمجھداری ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں موٹاپے، ذیابیطس، کینسر اور دل کے بڑھتے مسائل کے مدنظر چربی، میٹھے مشروبات، جنک فوڈ وغیرہ پر ٹیکس لگانے شروع کردیے گئے ہیں۔ اس قدم سے ان ممالک میں مثبت نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے ملٹی نیشنل کمپنیاں کچھ شورغل مچائیں اور حکومت کو اس کے غلط نتیجہ کے لیے دباؤ بنائیں، لیکن ملک کے مفاد میں مرکزی حکومت کو ایسے قدم ہر حال میں بغیر کسی دیر کے اٹھانے چاہئیں۔ برطانیہ، امریکہ، ڈنمارک اور جنوبی افریقہ سمیت اگر تمام دنیا کے ملک ڈبہ بند کھانا، شکر والے مشروبات پر ٹیکس لگاکر ایسے کھانوں سے عوام کی پہنچ سے دور کرنے کے لیے فیصلہ لے سکتے ہیں تو ہندوستان کیوں نہیں۔ جب کہ ہندوستان میں تقریباً 7کروڑ لوگ ذیا بیطس کے شکار ہیں۔ دنیا بھر میں دو کروڑ سے زیادہ بچے موٹاپے کے مسئلہ سے نبردآزما ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں دل کا دورہ اور کینسر کی بیماری میں کروڑوں لوگ مبتلا ہیں۔
حکومت ہند کی وزارت صحت لوگوں کی صحت کے تعلق سے فکرمند تو نظر آتی ہے، لیکن جن مشروبات اور کھانوں سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ان پر پابندی نہیں عائد کرپاتی ہے۔ ایسے میں عام لوگوں کی صحت کو بہتر بنائے جانے کی کوششیں بے کار ثابت ہورہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد سے جلد ملاوٹی اور صحت کے لیے لعنت ثابت ہوچکے مشروبات اور کھانوں کو کالی فہرست میں ڈال کر حکومت انہیں بین کرے۔
دراصل ملک کا لچیلا قانون ملٹی نیشنل اور دیسی کمپنیوں کی من مانی کرنے کی ڈھلائی دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کمپنیاں جنک فوڈ، ٹھنڈے مشروبات میں مقررہ معیار سے زیادہ کیڑے مار دوا، چینی اور نمک ملا کر لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہتی ہیں۔ کیرالہ حکومت نے فیٹ ٹیکس لگا کر ڈبہ بند کھانے کو مہنگا کردیا تھا۔ اس سے جہاں اس کی فروخت تو کم ہوئی، لیکن لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ڈبہ بند کھانا ان کی صحت کے لیے مفید نہیں ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS