تحریک کے دوسرے مرحلہ میں کسانوں کی بدلتی ہوئی سیاست

0

سیاسی پارٹیوں کے وابستہ ہونے سے کیا کسان تحریک انتخابی سیاست کے دائرہ میں کھینچ لی جائے گی؟
ابھے کمار دوبے
دہلی کی سرحدوں پر 80سے زائد دن گزار لینے کے بعد کسان تحریک اب واضح طور پر چھوٹی یا منجھولی مدت کی نہ رہ کر 6ماہ سے سال بھر کی ہوگئی ہے۔ اس کی سرگرمیوں میں طرح طرح کی تبدیلی ہونا فطری ہی ہے۔ آج یہ ایک ایسے نازک مقام پر پہنچ چکی ہے کہ جب ہر نئے واقعہ سے اس کا ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے۔ مثلاً اس نے اپنی شروعات غیرپارٹی صف بندی کے طور پر کی تھی۔ لیکن اس کے اندر اب سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہونے کا رجحان بھی نظر آرہا ہے۔ ممکن ہے یہ غازی پور بارڈر پر 28جنوری کو ہوئے واقعہ کا نتیجہ ہو۔ ایک دوسری تبدیلی اس کی معاشرتی بنیاد کی توسیع ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے کسان اس کے ساتھ وابستہ ہونے کا آغاز کرچکے ہیں جس کا نتیجہ اس کے شراکت داروں کی تنوع(Diversity) میں نکلے گا۔ سابق فوجیوں اور طلبا کی فعال ہمدردی تحریک کو مل چکی ہے۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ تحریک اپنے دوسرے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔
28جنوری کو راکیش ٹکیت کے آنسوؤں نے، بلکہ ایک کے بعد ایک بڑی کسان مہاپنچایتوں کے ذریعہ تحریک کو ایک ایسی طاقت میں بدل دیا جو مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے۔ مغربی اترپردیش، ہریانہ، پنجاب اور راجستھان میں ہونے والی ان مہاپنچایتوں کے اسٹیج اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں تو مہاپنچایت کے انعقاد میں بھی سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ ہے۔ خود کسان لیڈروں کی زبان میں اب آہستہ آہستہ وزیراعظم اور مرکزی حکومت کی واضح تنقید سنائی دینے لگی ہے۔
لیکن ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نظر نہیں آیا ہے کہ قیادت کررہی کسان یونینوں نے ان پارٹیوں کی حکمت عملی بنانے والوں سے کوئی صلاح مشورہ کیا ہو۔ کل ملاکر خاص طور سے یہ آج بھی غیرپارٹی ڈھانچہ ہی ہے، کیوں کہ اس کی قیادت کررہی چالیس کسان یونینیں آزاد تنظیمیں ہیں۔ وہ کسی الیکشن لڑنے والی پارٹی کے محاذ-تنظیموں کی طرح کام نہیں کرتیں۔ کسان لیڈروں میں سے ایک دو ایسے ضرور ہیں جن میں پارلیمنٹ یا اسمبلی پہنچنے کی خواہش رہی ہے، لیکن زیادہ تر نے اپنی پوری زندگی کسان جدوجہد میں ہی گزاری ہے۔ ایک ایک کسان لیڈر چالیس-پچاس مرتبہ جیل جاچکا ہے۔ ان کے بایاں محاذ سے لے کر دایاں محاذ تک الگ الگ نظریات ہیں۔ ایک بڑا لیڈر تو برسوں تک راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی بھارتیہ کسان سنگھ کی مدھیہ پردیش برانچ کی قیادت کرنے کے بعد وہاں سے نکالا جاچکا ہے۔
کیا سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک آسانی سے انتخابی سیاست کے دائرہ میں کھینچ لی جائے گی۔ دراصل الیکشن کی پارٹی-پالیٹکس کے تئیں تحریک کی گہری غیردلچسپی کا راست ثبوت پنجاب میں 14فروری کو ختم ہوئے بلدیاتی انتخابات(Local body elections ) کے دوران ملا۔ مظاہرہ کررہے کسانوں نے الیکشن کی پوری مدت میں بی جے پی کے لیڈروں کو ان کے گھروں کے سامنے مسلسل دھرنا دے کر انتخابی تشہیر نہیں کرنے دی۔ انہوں نے اپنی حمایت کررہے اکالی دل کو بھی نہیں بخشا۔ کسان کانگریس حکومت کی بھی اس لیے تنقید کررہے ہیں کہ جب کسانوں کا مظاہرہ چل رہا تھا تو ان انتخابات کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ جب اسمبلی یا لوک سبھا انتخابات ہوں گے تو کسان یونینیں سیاسی پارٹیوں کے سامنے اپنی شرائط رکھیں گی۔ جو پارٹی ان کے مطالبات کے چارٹر کو حمایت دے گی، اسے کسانوں کے نئے موڈ کا فائدہ مل سکتا ہے، لیکن وہ وقت ابھی دور ہے۔
(مضمون نگار سی ایس ڈی ایس ، دہلی میں پروفیسر اور ہندوستانی بھاشا پروگرام کے ڈائریکٹرہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS