کسانوں کیلئے نئی مصیبت لایا ہے ایئرپولیوشن کمیشن

0

یوگیندر یادو

ہر سال کی طرح ایک بار پھر دہلی اور این سی آر میں اسماگ کا موسم آگیا ہے۔ جیسے جیسے راجدھانی کی ہوا میں دھند اور دھویں کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، ویسے ویسے ٹی وی اور حکومت کی نظر بھی دھندلی ہوجاتی ہے، دم گھٹتا ہے تو دل سکڑ جاتا ہے، خالی دماغ بوکھلانے لگتا ہے۔ اس کیفیت میں ہر سال کچھ جادوئی علاج کرنے کا تقریباً سوچا جاتا ہے۔ اس سال کا جادوئی فارمولہ مرکزی حکومت نے 28اکتوبر کو ایک آرڈیننس کی شکل میں جاری کیا ہے۔ ’’قومی دارالحکومت اور اس سے وابستہ علاقوں میں ہوا کے معیار کے انتظام کے لیے کمیشن آرڈیننس، 2020‘‘ نامی اس نئے قانون سے آلودگی کے مسئلہ کو سلجھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آلودگی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے جتنی کمیٹیاں وغیرہ تشکیل ہوئی تھیںان سب کو سمیٹ کر مرکزی حکومت نے ایک بڑا اور طاقتور کمیشن بنادیا ہے۔ اس کمیشن کو فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے دہلی یا این سی آر ہی نہیں، پڑوسی چار ریاستوں یعنی ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش پر بھی پوری طاقت دے دی گئی ہے۔
یہ کمیشن فضائی آلودگی کو روکنے میں جادو کی چھڑی ثابت ہوگا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا طے ہے کہ یہ نیا آرڈیننس دہلی، ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش کے کسانوں کے سرپر لٹک رہی ایک نئی تلوار ضرور ثابت ہوگا۔ مرکزی حکومت کے تین کسان مخالف قوانین کی مار جھیل رہے کسانوں کے لیے یہ نیا آرڈیننس ایک نئی مصیبت لے کر آیا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے میڈیا اور حکومت، دہلی میں آلودگی کا ٹھیکرا کسانوں کے سر پر پھوڑ رہے ہیں۔ لیکن درمیان میں ریاستی حکومتیں ہونے کی وجہ سے کسان کچھ حد تک محفوظ ہوئے ہیں۔ اب یہ مرکزی کمیشن بننے سے پانچ ریاستوں کے کسان راست مرکزی حکومت کے افسروں کی مار میں آجائیں گے اور ان کے پاس کورٹ کچہری میں جانے کا راستہ بھی بند ہوجائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دھان کی فصل کی باقیات یعنی پرالی کو جلانا فطرت، ماحولیات اور انسان سب کے لیے خراب ہے۔ اس سے سب سے پہلے اس گاؤں اور آس پاس کے علاقہ میں دھواں پھیلتا ہے، قدرتی وسائل تباہ ہوتے ہیں اور کھیتی کے لائق زمین کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے پرالی کو جلانا خود کسان کے حق میں بھی نہیں ہے۔ جہاں تک دہلی اور این سی آر کی آلودگی کا تعلق ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہاں کی صنعتیں اور گاڑیوں کی آلودگی ہے۔ شہر میں جلنے والا کچرا اور بلڈنگوں کی تعمیر کا گردوغبار بھی بہت بڑی وجہ ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سردی کے مہینوں میں اس علاقہ کی آلودگی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ پرالی جلانے سے بڑھتا ہے۔
کیا یہ نیا قانون اور کمیشن اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل کرے گا؟ یہ صحیح بات ہے کہ مختلف کمیٹیوں اور ٹاسک فورس کی جگہ ایک کمیشن بنانے سے سرکاری پالیسیوں میں کچھ سالمیت اور ہم آہنگی ہوسکتی ہے لیکن اس قانون کو بنانے کے طریقہ میں تین بنیادی خامیاں ہیں۔ ایک ایسا کوئی قانون بنانے کے بارے میں کسانوں یا دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ دو، مرکزی حکومت کے اس قانون کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کے زرعی حقوق کو چھین لیاگیا ہے۔ کہنے کو اس کمیشن میں پانچوں ریاستی حکومتوں کا ایک ایک نمائندہ ہوگا لیکن باقی 13ممبرمرکزی حکومت کے رہیں گے۔ تین، اتنے اہم قانون کو آرڈیننس کے چور دروازہ سے لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کمیشن کی تشکیل کرنے، اس کا دفتر بنانے اور کام کاج شروع کرنے میں کم سے کم چھ ماہ لگ جائیں گے۔ تب تک آلودگی کا یہ موسم ختم ہوچکا ہوگا۔ اس جلدبازی کا ایک ہی سبب نظر آتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جج مدن لوکر کی صدارت میں ایک کمیٹی بنادی تھی اور مرکزی حکومت کسی بھی حالت میں اس کمیٹی کو روکنا چاہتی تھی۔
اگر اس عمل کو فراموش بھی کردیں تو بھی یہ قانون کسانوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ پہلا تو مجوزہ کمیشن میں کسانوں کا کوئی نمائندہ یا ایگریکلچرل سائنٹسٹ نہیں ہوں گے جبکہ صنعت اور تجارت کے نمائندے کا انتظام ہے۔ دوسرا، کمیشن کو ریاستی حکومت کو کنارے لگاتے ہوئے بہت خطرناک طاقتیں دی گئی ہیں جس میں وہ زراعت سے متعلق کوئی بھی ہدایت دے سکتا ہے۔ کمیشن پرالی جلانے پر پابندی تو لگاہی سکتا ہے یہ ہدایت بھی دے سکتا ہے کہ کچھ خاص علاقوں میں دھان کی فصل ہی نہ لگائی جائے۔ کمیشن چاہے تو کچھ علاقوں یا کچھ موسم میں کسانوں کا بجلی پانی بند کروا سکتا ہے۔
تیسرا، اگر اس کمیشن کی ہدایت پر عمل نہیں ہو تو ایک کروڑ روپے تک کے جرمانہ اور 5سال کی سزا کا التزام ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کمیشن کے حکم کے خلاف صرف این جی ٹی میں اپیل ہوسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر دہلی میں بیٹھے اس کمیشن نے پنجاب یا اترپردیش کے کسی کسان پر ایک کروڑ کا جرمانہ لگادیا تو وہ کسی کورٹ کچہری میں بھی نہیں جاسکتا اور نہ ہی ریاستی حکومت اس کی کوئی مدد کرسکتی ہے۔
پورے ملک کی کسان تنظیموں نے تین کسان مخالف قوانین اور مجوزہ بجلی قانون کے خلاف پہلے سے ہی 5نومبر کو سڑکوں پر چکا جام اور 26اور 27نومبر کو دہلی چلو کا اعلان کردیا ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت کا یہ نیا آرڈیننس کسان تحریک کو پھیلانے کے لیے ایک اور چنگاری کا کام کرے گا۔
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور سوراج انڈیا کے صدرہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS