چھوٹی جنگ، بڑا خطرہ

0

وسطی ایشیا میں لگی چنگاری بڑی آگ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جاری خونیں جنگ اب دوسرے ہفتہ میں داخل ہورہی ہے۔ ناگورنو-کاراباخ سے متعلق دونوں ممالک پہلے بھی متصادم ہوتے رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں جنگ کبھی اتنی لمبی نہیں چلی ہے۔ ناگورنو-کاراباخ جنوبی کاکیشس کا ایک پہاڑی علاقہ ہے جس پر قبضہ سے متعلق دونوں ممالک کا دہائیوں پرانا تنازع ہے۔ لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ زمین کے ایک ٹکڑے سے متعلق چل رہی دو ممالک کی جنگ، آگے چل کر دنیا کے کئی ممالک کو ایک دوسرے پر چڑھائی کا موقع بھی دے دے گی۔
آرمینیا اور آذربائیجان کو منقسم کرنے والی لائن آف کانٹیکٹ پر27ستمبر سے جنگ جاری ہے۔ فوجی جھڑپوں میں اب تک 100سے زائد شہری اور آرمینیائی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ آرمینیا نے بھی آذربائیجان کو زبردست نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن آذربائیجان نے اپنے ملک کے ہلاک شہریوں اور فوجیوں کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔ ایسی خبریں ہیں کہ اس مرتبہ حملہ کا آغاز آذربائیجان کی جانب سے ہوا ہے۔ اس کا مقصد علیحدگی پسندوں کے قبضہ والے کچھ حصے کو چھڑانا بتایا جارہا تھا۔ اس مرتبہ کی جھڑپ میں الگ بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ دونوں ممالک نے اپنے یہاں مارشل لاء نافذ کیا ہے۔ آرمینیا، ناگورنو-کاراباخ اور آذربائیجان تینوں جگہ فوجیوں کی کمی پڑنے سے مرد شہریوں کو بھی مورچے پر جھونک دیا گیا ہے۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اپنی سرحدوں کے پاس سیکورٹی ژون بنانے کے لیے روس آرمینیا کی راست مدد کررہا ہے۔
اس جنگ میں دنیا کی دلچسپی کی اب تک دو وجوہات سامنے آئی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جہاں جنگ چھڑی ہے، اس علاقہ سے کچے تیل اور قدرتی گیس کی پائپ لائن نکلتی ہے، جن سے ہونے والی سپلائی کا بڑا حصہ یوروپین یونین کو جاتا ہے۔ دوسری وجہ کے معنی زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔ عیسائی اکثریت والے آرمینیا اور مسلم اکثریت والے آذربائیجان کا تنازع مذہبی خیمہ بندی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ فرانس کھل کر آرمینیا کی حمایت میں آگیا ہے اور اگر جنگ لمبی چلی تو فوجی سمجھوتے کی وجہ سے روس بھی آرمینیا کی مدد کرسکتا ہے۔ فی الحال تو روس اس تنازع میں توازن کی سیاست کررہا ہے، کیوں کہ وہ آذربائیجان کو بھی اسلحہ دیتا ہے۔ دوسری طرف ترکی اور پاکستان آذربائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ غیرتصدیق شدہ خبریں ہیں کہ آئی ایس آئی اور ترکی نے آذربائیجان میں کرائے کے لڑاکے اُتار دیے ہیں۔
پاکستان کو تو آذربائیجان سے نیا نیا پیار ہوا ہے، لیکن ترکی آذربائیجان کا پرانا دوست ہے۔ اس نے 1993 سے ہی آرمینیا سے لگی اپنی سبھی سرحدوں کو سیل کیا ہوا ہے۔ اس مرتبہ تو ترکی نے آذربائیجان کو ہر حال میں بغیر شرط حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ آذربائیجان کو اسلحہ سپلائی کرنے کے الزامات کے بعد اسرائیل بھی شک کے گھیرے میں آگیا ہے۔ اس اطلاع کے تصدیق کے لیے آرمینیا نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو طلب بھی کیا تھا۔ حالاں کہ آرمینیا نے اب تک نہ تو اس خبر کی تصدیق کی ہے، نہ ہی تردید کی ہے۔ ترکی اور روس سیریا اور لیبیا میں چل رہی خانہ جنگی میں بھی الگ الگ فریقوں کو حمایت دینے کے سبب آمنے سامنے ہیں۔ آذربائیجان کو ترکی کی حمایت ناگورنو-کاراباخ میں روس کے تسلط کی کاٹ کی طرح بھی دیکھا جارہا ہے۔
فرانس کے صدر امانوئل میکروں نے ترکی کے رُخ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متنازع علاقہ میں چلی ہر گولی جنگ کی بولی بول رہی ہے۔ فرانس اس تنازع کو سلجھانے کے لیے بنے آرگنائزیشن فار سیکورٹی اینڈ کوآپریشن ان یوروپ(OSCE) منسک گروپ کا ممبر ہے۔ فرانس میں آرمینیائی نژاد شہریوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ لیکن فرانس نے بھی آرمینیا کو مدد کی یقین دہانی کراکے آگ میں گھی ڈالنے کا ہی کام کیا ہے۔ پڑوسی ممالک ایران، جارجیا اور قطر نے ضرور ثالثی کی پیش کی ہے، کیوں کہ ان کے لیے گیس اور تیل کی پائپ لائن کی حفاظت کی بڑی معاشی اہمیت ہے۔
75ویں سال میں داخل ہوچکے اقوام متحدہ کی معنویت اس کشیدگی سے پھر سوالات میں گھر گئی ہے۔ پہلے تو سیکورٹی کونسل کی نیند حالات بگڑنے کے دو دن بعد ٹوٹی اور پھر اپنی جانب سے کوئی سرگرم پہل کرنے کے بجائے اس نے منسک گروپ کو اس کا فرض یاد دلاکر اپنا پلّہ جھاڑ لیا۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے جھگڑے کا مستقبل خطرناک ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی تاریخ بھی خونیں رہی ہے۔ سال 1922میں جب سوویت روس کی تشکیل ہوئی تو آذربائیجان اور آرمینیا دونوں کو اس میں ملادیا گیا۔ اس وقت دونوں کے مابین رشتے نارمل تھے۔ یہاں تک کہ ناگورنو-کاراباخ سے متعلق بھی دونوں میں کوئی تنازع نہیں تھا۔ حالاں کہ آپسی جھڑپ کے چھوٹے موٹے واقعات تب بھی ہوتے تھے، جیسے 1948اور 1964میں آرمینیا میں ہوئی عوامی بغاوت جس کے سبب آذیریوں کی بڑے پیمانہ پر نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ لیکن سخت سوویت سینسرشپ کے سبب ایسے واقعات دنیا کے سامنے نہیں آپائے۔ تنازع کی شروعات 80کی دہائی کے آخری برسوں میں ہوئی جب سوویت یونین کی تحلیل شروع ہوئی۔ سال 1988میں آرمینیا کی مقامی پارلیمنٹ نے ناگورنو-کاراباخ کو آرمینیا کو منتقل کرنے کی حمایت میں ووٹ دیا۔ لیکن اس وقت کی سوویت حکومت نے اس رائے شماری کو منظوری دینے سے انکار کردیا۔اس کے بعد ناگورنو-کاراباخ کا مسئلہ سلگتا رہا ۔سال 1994میں جب روس نے دونوں ممالک کے مابین سیزفائر کروایا، تب تک آرمینیا کے علیحدگی پسندوں کا ناگورنو-کاراباخ پر قبضہ ہوچکا تھا۔ اندازہ ہے کہ 1988سے 1994کے درمیان کشیدگی کے دور میں دونوں جانب سے تقریباً 30ہزار لوگ مارے گئے اور 10لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔
جس ناگورنو-کاراباخ سے متعلق جھگڑا چل رہا ہے وہ مغربی ایشیا اور مشرقی یوروپ کے درمیان پھیلا ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں زیادہ تر آرمینیائی نژاد لوگ رہتے ہیں، پھر بھی یہ سوویت دور سے ہی آذربائیجان کا حصہ رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی اسے آذربائیجان کے حصہ کے طور پر ہی منظوری دیتی ہے، لیکن اس کے زیادہ تر حصہ پر آرمینیائی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے، جنہوں نے اس علاقہ کو ناگورنو-کاراباخ آٹونومس اوبلاسٹ کے نام سے آزاد جمہوریہ اعلان کررکھا ہے۔ حالاں کہ باقی دنیا کی طرح آرمینیائی حکومت بھی اسے منظوری نہیں دیتی، لیکن علیحدگی پسندوں کو اس کی سیاسی اور فوجی حمایت حاصل ہے۔
فرانس، روس اور امریکہ کی صدارت والا منسک گروپ دونوں ممالک کے مابین برسوں سے امن بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے رشتے اتنے تلخ ہیں کہ آرمینیا کا کوئی شہری آذربائیجان نہیں آسکتا۔ اتنا ہی نہیں، کسی دوسرے ملک میں رہنے والے آرمینیائی نژاد شخص کے بھی آذربائیجان میں آنے پر پابندی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے پاسپورٹ میں ناگورنو-کاراباخ کے سفر کا ذکر بھی ہوتا ہے تو اسے ایئرپورٹ سے ہی بیرنگ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
اس مرتبہ کچھ ایسا ہی حال دنیا بھر سے آرہی امن کی اپیلوں کا ہورہا ہے۔ سیزفائر کی اپیلیں ان سنی کی جارہی ہیں۔ تو یہ جنگ کس جانب جارہی ہے؟ اس مرتبہ دونوں فریقوں کی لمبی جنگ کی تیاری نظر آرہی ہے اور زمینی حالات بڑے خطرے کا اشارہ کررہے ہیں۔ اب تک دونوں ممالک کے مابین جنگ ہوتی تھی تو دو-ایک دن چل کر تھم جاتی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ 1990کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ متنازع علاقہ میں رہ رہے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آذربائیجان کا رُخ سابقہ جنگوں سے الگ ہے اور اس نے آرمینیا کی بات چیت کی پیش کش ٹھکرادی ہے۔ ترکی سمیت دوسرے ممالک کی خیمہ بندی بھی کبھی اتنی کھل کر سامنے نہیں آئی۔ اس لیے تنازع سلجھنے کے بجائے سلگتا جارہا ہے۔ بڑا سوال شاید یہ بھی ہوگا کہ جب پوری دنیا ہی آگ میں کود جائے گی تو آگ بجھانے کا کام کرے گا کون؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے 
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS