رئیس الاحرارمولانا محمد علی جوہر کی بازیافت

0

معصوم مرادآبادی

رئیس الاحرار مولانا محمدعلی جوہر ہندوستان کی تحریک آزادی کے ان قائدین میں شامل ہیں، جنھوں نے ملک کی آزادی کی راہیں متعین کی تھیں۔انھوں نے اپنے فکر وعمل سے لوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ ہی پیدا نہیں کیا بلکہ انھیں غلامی کی زنجیریں توڑنے پرآمادہ کیا۔ انھوں نے  10دسمبر 1878 کو ایک ایسی جلیل القدر ماں کی گود میں آنکھ کھولی جو تمام ماؤں سے مختلف اور ایک جری اور بہادر خاتون تھیں۔ ان کی والدہ بی اماں بھی ہندوستان کی تحریک آزادی کا ایک اہم ستون ہیں۔ انھوں نے تنگ دستی اور جفاکشی میں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دیا۔مولانا محمدعلی جوہرنے علی گڑھ اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ رام پور اور بڑودہ میں ملازمت کی اور غلامی کی زنجیروں کوتوڑنے کے لیے شمشیر بے نیام بن گئے۔آج ہم ان کا یوم ولادت ایک ایسے موقع پر منارہے ہیں جب ان کی قائم کی ہوئی مرکزی دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدی تقریبات منائی جارہی ہیں۔مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ساتھیوں نے 1920 میں جو پودا لگایا تھا، وہ آج ایک تناور درخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور میٹھے پھل دے رہا ہے۔
جامعہ صدی تقریبات کے تناظر میں مولانا محمدعلی جوہر پرشائع ہونے والی ایک دستاویزی نوعیت کی کتاب کا تذکرہ کرناموزوں معلوم ہوتا ہے۔یہ کتاب مولانا محمدعلی جوہر کے آخری دور 1929-30میں ان کے انتہائی قریب رہے مولانا محمدعبدالملک جامعی کے قلم کا شاہکار ہے، جو جامعہ کے پہلے بیچ کے گریجویٹ اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے چہیتے شاگرد تھے۔یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب جامعہ کی عمارتیں دہلی کے قرول باغ میں کرائے کی بلڈنگوں میں تھیں۔ مولانا محمدعلی جوہر کی رہائش یہیں اقبال منزل میں تھی اور اس کے سامنے جامعہ کا وہ ہاسٹل گلشن منزل تھا جس میں مولانامحمدعبدالملک جامعی بطور طالب علم مقیم تھے۔ وہ اپنا بیشتر وقت مولانا محمدعلی کی خدمت میں گزارتے اورمولانا سے ان کا تعلق اتنا مستحکم ہوا کہ وہ ان کے گھر کے ہی ایک فرد بن گئے۔ مولانا محمدعلی جوہر کی وفات (4 جنوری1931)کے بعد وہ ان کی اہلیہ اور بیٹیوں کے مسلسل رابطے میں رہے،جس کا ثبوت اس کتاب میں شامل مولانا محمدعلی کی اہلیہ کے دوخطوط ہیں جو انھوں نے مصنف کے نام 1937 اور 1940میں بھوپال سے لکھے۔
’’ مولانامحمدعلی جوہر: آنکھوں دیکھی باتیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی 200سے زیادہ صفحات کی اس کتاب کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہ سارا مواد پہلی بار منظرعام پر آرہا ہے۔میراخیال ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران مولانا محمدعلی جوہر پر اتنی دستاویزی نوعیت کی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں مولانا محمدعلی جوہر کی زندگی کے آخری دس برسوں کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے اور ان کی تحریکی سرگرمیوں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں مصنف نے ان کی زندگی کے آخری دوبرسوں کی آنکھوں دیکھی داستان بڑی دردمندی اور جاں سوزی کے ساتھ بیان کی ہے۔ یہ مولانا محمدعلی کے ایک ایسے عاشق صادق کے قلم کا جادو ہے جس نے ان کا مشاہدہ ایک ایسی نگاہ سے کیا جو عقیدت ومحبت سے سرشار تھی۔
 اس کتاب میں محمدعبدالملک جامعی نے کچھ اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جس وقت مولانا انگریز سامراج سے لوہا لے رہے تھے تو یہ ان کی بے سروسامانی کا دور تھااور ان امور میں ان کا کوئی معاون اور مددگار بھی نہیں تھا۔ صحت کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر نے اسی زمانے میں کہا تھا کہ اگر آپ نے نوکر کو ذرا زور سے آواز دی تو ہوسکتا ہے کہ آنکھ کا پردہ پھٹ جائے۔مگر وہ اس پھوٹ جانے والی آنکھ سے ہی سارے کام کررہے تھے۔ تقریریں بھی، تحریریں بھی، مباحثات بھی، مجادلات بھی، جلسے بھی، کانفرنسیں بھی، وائسرائے سے ملاقاتیں بھی اور دوستوں سے شکایتیں بھی۔ دن دن بھر کاغذات سیاہ کرتے اور رات رات بھر بیٹھ کر اس کو ٹائپ کرتے۔ اس سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ راتوں کو کاربن پیپر کی تلاش میں دوڑا پھرا کرتے تھے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ یہ تماشہ تو میں نے خود دیکھا کہ ایک رات وہ ہمارے کالج کے ہاسٹل ’ گلشن منزل ‘ میں کاربن کی تلاش میں آئے تھے۔ یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا رہنما تھا۔ سب سے بڑامحبوب اور سب سے بڑا قائد تھا، جیسا انھیں نہ پہلے کبھی ملا تھااور نہ اب تک اس کے بعد ملا۔مصنف نے لکھا ہے کہ وہ ایک روز مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ کانگریس اور مسلمانوں کے معاملات پر انگریزی میں اپنا ایک پمفلٹ تیار کرکے اس پر لوگوں کو بھیجنے کے لیے خود ہی پتے لکھ رہے تھے۔ اپریل 1930میںشاہجہانی جامع مسجد سے آخری تقریر میں اپنی حد سے گزری ہوئی صحت کے بارے میں مولانا محمدعلی نے کہا تھا: ’’ اگر میرے ایک پاؤں کے نیچے برف کی ایک سل رکھ دی جائے اور ایک کے نیچے آگ کے انگارے تو میں یہ نہیں بتا سکوں گاکہ آگ کس پاؤں کے نیچے ہے اور برف کس پاؤں کے نیچے۔‘‘
مصنف نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مولانا کی مہمات میں دوچیزیں اہم تھیں۔ ایک شاردا بل کی مخالفت اور ایک کانگریس سے ٹکر۔ شاردا بل کی مخالفت میں ایک جانب سارے ہندوؤں کی مخالفت مول لے لی اور دوسری جانب خود حکومت اور کانگریس سے ٹکر لے کرتو اپنے سارے ہی دوستوں کو دشمن بنالیا۔غرض کہ محمدعلی یکا و تنہا رہ گیا تھا۔یہاں تک کہ خود جامعہ میں بھی اس کا کوئی مدد گار نہیں تھا اور جامعہ کے اندر رہتے ہوئے غریب الدیار تھا۔ دنیا محمدعلی سے ٹوٹ چکی تھی۔ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا ظفرعلی خاں، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، یہ سب محمدعلی کے خلاف ایک محاذ بناچکے تھے اور سارے ملک میں اس کی آواز پر کان دھرنے والا کوئی نہیں تھا۔مصنف نے لکھا ہے کہ ایک زمانے میں مالی دشواریوں کا یہ حال تھا کہ مولانا محمدعلی روزانہ ایک انگریزی اخبار خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تھے۔’’ ہمدرد‘‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد سبھی نے تبادلے میں اپنے اخبار بھیجنا بند کردیے تھے۔
مصنف کا بیان ہے کہ مولانامحمدعلی کے انتقال اور تدفین کے بعد جب سوگوار قافلہ ہندوستان واپس آیا تو اسٹیشن سے ایک ماتمی جلوس کی شکل میں جامع مسجد دہلی پہنچا۔ اسی منبر پر جو 1922 سے1930 تک مولانا محمدعلی کی سیاست اور مذہبیت کا سب سے بڑا مرکز تھا، شوکت علی نے اپنے بھائی کی وفات اور تدفین کے حالات سنائے اور مسلمانوں کو بے دل اور بے ہمت نہ ہونے کی تلقین کی۔ اسی دوران دیکھا کہ جامع مسجد کے جنوبی دروازے سے ڈاکٹر ذاکرحسین اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے داخل ہوئے۔ مصنف کا بیان ہے کہ میں نے کبھی کسی سنجیدہ اور معمرآدمی کوکسی کے غم میں اس طرح روتے ہوئے نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔
اس کتاب میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کے گہرے دوست سیدحسن، جنھیں وہ وفد خلافت میں اپنے ساتھ یوروپ لے گئے تھے، کا نکاح جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کے ساتھ ہوا تھا۔ اس میں سرعلی امام اور راجہ محمودآباد گواہ تھے اور نکاح عبدالباری صاحب نے پڑھایا تھا۔ بعد کو جبراً یہ شادی توڑی گئی اور سیدحسن امریکہ چلے گئے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ محمدعلی کی زندگی ایک طوفانی زندگی تھی۔ دن رات اس کو آندھی طوفان سے مقابلہ تھا اور حقیقت ہے کہ ان ہی طوفانوں میں اس کی زندگی تمام ہوئی، لیکن اس نے کبھی ہار نہیں مانی، کبھی پسپا نہیں ہوا۔ انتقال سے تین دن قبل اپنی بیٹی گلنار سے کہہ رہے تھے کہ ’’ مجھ میں اب بھی اتنی قوت ہے کہ ہاتھی سے لڑسکتا ہوں۔‘‘
محمدعلی معمار نہیں تھا۔ معماریت اس کی طبیعت میں نہیں تھی۔ پرانی عمارت کوڈھاکر نئی عمارت کا نقشہ بنانا بھی نہیں بلکہ اس کی حدود کو متعین کرنااس کا کام تھا۔ نہرو رپورٹ، شاردا بل،سائمن کمیشن،جامعہ ملیہ اسلامیہ، ابن سعود کی حمایت اور پھر ان کی مخالفت، انقلاب افغانستان، شدھی سنگٹھن، جمعیۃ تبلیغ اسلام، رولٹ ایکٹ، مقدمہ راجپال، فلسطین کانفرنس، خدام کعبہ یونیورسٹی، یہ ساری معرکہ آرائیاںمستقبل کے خطوط کو معین کرنے کے لیے تھیں، لیکن تمام کارناموں میں مصنف کے نزدیک سب سے اہم کارنامہ ترکی طبی مشن ہے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ مولانا محمدعلی نے طبی مشن کے اخراجات کے لیے ہلال احمر کی انجمن کو اس پرراضی کرلیا تھاکہ وہ پندرہ ہزار کی رقم اس وفد کو دیں گے مگر عین موقع پر ان لوگوں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد مولانا محمدعلی نے اپنے انگریزی اخبار ’’کامریڈ‘‘ کے لیے مضمون لکھا جس میں مسلمانوں سے طبی مشن کے چندے کے لیے وہ دل دہلانے والی اپیل کی کہ جس نے ’’ کامریڈ‘‘ کے دفتر پر روپیوں کی بارش شروع کردی۔‘‘ 
اس کتاب میں مولانا محمدعلی جوہر کی اس معرکۃ الآراء تقریر کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے جو انھوں نے اپنے انتقال سے قبل لندن کی گول میز کانفرنس میں کی تھی اور جس میں ہندوستان کے لیے یہ کہتے ہوئے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ ہم کو ہندوستان میں آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو یہاں مجھے ایک قبر دینی پڑے گی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS