جواب طلب سوال

0

چین کی توسیع پسندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بحیرئہ جنوبی چین اوربحیرئہ شرقی چین میں متعدد ملکوںکے علاقوں پر وہ دعوے کرتا ہے اور دعوے کرتے وقت بین الاقوامی آبی راستوں کے ضابطوں کا خیال نہیں کرتا۔ گلوان تنازع شروع کرنے پر بھی اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ باقی سوالوں کو تو چھوڑئیے، چین اس سوال کا جواب اب تک نہیں دے سکا ہے کہ سرحد پر بڑی تعداد میں اس نے فوجیوں کی تعیناتی کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ ہندوستان کی طرف سے ایسی کوئی بات ہوتی، کوئی تنازع چھیڑا جاتا تو چین یہ کہہ سکتا تھا کہ فوجیوں کی تعیناتی کی وجہ تنازع ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ دونوں ملکوں کے تجارتی رشتے بہت مضبوط ہوگئے تھے۔ تجارت کا عدم توازن چین کی طرف سے تھا۔ اس کے باوجود ہندوستان نے اسے سنگین مسئلہ نہیں بنایا تھا لیکن چینی فوجیوں نے وادی گلوان میں آگے بڑھ کر ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ ناقابل یقین ہیں۔ وہ جو دکھاتے ہیں، وہ کرتے نہیں ہیں۔ 1962 میں بھی انہوں نے ہندوستان پر اس وقت حملہ کیا تھا جب ہندوستانی ’ہندی چینی، بھائی بھائی‘ کے نعروں سے خوش تھے۔
دراصل شی جن پنگ پر توسیع پسندی اتنی حاوی ہو چکی ہے کہ وہ ایک طاقتور پڑوسی کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کی حکمت عملی سے ایسا لگتا ہے کہ دیگر ملکوں کی طرح پڑوسیوں کے معاملے میں بھی چین کی واضح پالیسی نہیں ہے، ورنہ وہ معاہدوں کا خیال کرتا اور سرحدوں پر امن برقرار رکھنے کی ہر طرح سے کوشش کرتا۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ ’بیجنگ نے سرحد پر امن کے حوالے سے ہوئے سمجھوتے توڑے اور اس کی واضح وجہ بھی نہیں بتا رہا۔‘ جے شنکر کا کہنا ہے کہ چین نے اب تک ’پانچ الگ الگ صفائیاں‘ دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تنازع کو اب 8 مہینے ہونے والے ہیں مگر فی الوقت ایسا نظر نہیں آتا کہ یہ ہفتے دو ہفتے میں حل کرلیا جائے گا۔ تنازع حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے پوری کوشش کی ہے، چین ہندوستان پر کسی طرح کا الزام عائد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ غالباً اسی لیے اسے بار بار الگ الگ طرح کی صفائی دینی پڑ رہی ہے اور عالمی برادری کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ گلوان تنازع پر چین کا غیرواضح موقف ہی اس کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ایس جے شنکر کا یہ کہنا مناسب ہے کہ ’دونوں فریق اب تک کئی بار بات کرچکے ہیں مگر بنیادی بات نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ سمجھوتے پر عمل نہیں ہو رہا۔‘ شنکر کا یہاں تک کہنا ہے کہ چین سے ہندوستان کے تعلقات ’اب تک کے سب سے خراب دور میں ہیں‘۔ ایسی صورت میں تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کا سلسلہ تو جاری رہنا چاہیے لیکن اسی کے ساتھ ہندوستان کو دفاعی طور پر بھی ہر طرح سے تیار رہنا چاہیے تاکہ وقت پڑنے پر جوابی کارروائی میں تاخیر نہ ہو۔ پی ایم نریندر مودی کی ’آتم نربھر مہم‘ اچھی ہے۔ اس سے ہندوستان مضبوط ہوگا تو چینی اشیا کی ہندوستان میں کھپت کم سے کمتر ہوتی جائے گی، کیونکہ وقت اب سوچنے کا یہ آگیا ہے کہ کیا چین ہمارے علاقوں پر نظربد رکھے گا اور ہم اس کی تجارت کو اپنے یہاں پھلنے پھولنے کا موقع بھی دیں گے؟
’کواڈ‘ میں ہندوستان کی شمولیت اہمیت کی حامل ہے۔ اسے اور مضبوط کیا جانا چاہیے۔ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا جیسے پڑوسیوں کو چینی اثرات کے دائرے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ چین ہندوستان کو گھیرنے کے لیے اس کے پڑوسیوں میں سرمایہ کاری کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان ملکوں سے ہندوستان کے رشتے کبھی خراب نہیں ہوئے، البتہ سی اے اے اور این آر سی پر اندرونی سیاست کا اثر بنگلہ دیش سے تعلقات پر کس حد تک اثرپڑ سکتا ہے، اس پر توجہ ضرور دینی چاہیے اور یہ جاننے کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ پچھلے ایک سال میں نیپالی حکومت کے ایک کے بعد ایک ہند مخالف فیصلوں کی وجوہات کیا رہیں۔ ان وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بات بالکل نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ چین ہندوستان کا ایک طاقتور پڑوسی ہے، وہ جمہوری ملک نہیں ہے۔ امریکہ کی جگہ لینے کے لیے وہ بے چین ہے اور اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کی راہ میں اگر کوئی ملک رکاوٹ ہے تو وہ ہندوستان ہے، کیونکہ عالمی برادری چین کے مقابلے ہندوستان کو کافی اہمیت دیتی ہے اور ہندوستان کی ترقی اسے ڈراتی نہیں ہے!
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS